Tuesday, February 5, 2008

hindustani madrase benaqab

مدارس اسلامیہ کو جملہ خرافات و مغلظات کا مجموعہ

قراردینے والی کتاب’اسلامک مدرسےبے نقاب‘کااجرا



شاہدالاسلام

نئی دہلی:ہندوستان کے تقرےباً تمام دہشت گرد اسلامی مدارس سے وابستہ ہےں۔ ملک کی سےاسی قےادت اور جمہورےہ ہند کی تقدےر سنوارنے والااکثرےتی طبقہ اس حقےقت سے انجان کےوں ہے؟ سرحدی خطوں مےں حشرات الارض کی طرح نمودار ہو نے والے مدارس آخر کےا پےغام دےتے ہےں ؟ وہاں جاری سرگرمےوں پر ہر شخص خاموش کےوں ہے؟ جب تک مدرسوں مےں اسلامی تعلےم کے نام پر مذہبی تعلےم دی جاتی رہے گی اس وقت تک دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہےں .... لہذا موقع گنوائے بغےر حکومت ہند کو چاہئے کہ ہندوستان کی وحدت و سا لمےت کو برقرار رکھنے کےلئے کسی بھی طرح کی مذہبی تعلےم کو جس سے انتہا پسندی، شدت پسندی اودہشت گردی کو شہ ملتی ہو مکمل طور پر اس پر پابندی عائد کرے۔ےہ زہر افشانی معروف ہندی صحافی نوےن کمار کی نو تصنےف ’ اسلامی مدرسے ....بے نقاب‘ مےں کی گئی ہے جس کا اجراءکل آر اےس اےس چےف کے سی سدرشن کرنے والے ہےں ۔حےرت کی بات ےہ ہے کہ مولانا مسعود مدنی مہمان ذی وقار کی حےثےت سے شرےک تقرےب ہوکر ان تمام الزامات کی اخلاقی تصدےق فرمائیںگے۔جبکہ اس سلسلے میں تصدیق کیلئے رابطہ قائم کرنے پر انہوںنے ایک تحریری وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ دعوت نامہ میںمیرانام غلط استعمال ہوا ہے۔مو لانا مدنی اےک اےسے مذہبی خانوادے سے تعلق رکھتے ہےں جسے نہ صرف ےہ کہ ہندوستانی مسلمانوں کے درمےان وقار و اعتبار حاصل ہے بلکہ عالم اسلام مےں بھی انہےں بنظر استحسان دےکھا جاتا ہے۔ موصوف شےخ الاسلام مولانا حسےن احمد مدنی کے پوتے اور فدائے ملت مولانا اسعد مدنی کے صاحبزادے ہےں جنہےںمدارس اسلامےہ کے نظام کو ملک بھر مےں فروغ دےنے کے حوالے سے ےاد کےا جا تا ہے ۔تقرےبا 300صفحات پر مشتمل ےہ کتاب ہری اوم آفسےٹ پرےس سے طبع ہو ئی ہے جس کا پےش لفظ فرقہ وارانہ منافرت پھےلانے کےلئے بدنام ممبر پارلےمنٹ ےوگی آدتےہ ناتھ نے تحرےر کےا ہے ۔ رسم اجراءکی تقرےب ہندی بھون مےں منعقد ہوگی ۔ جن دےگر اہم شخصےات کواس پروگرام مےں مدعو کےا گےا ہے ان مےںسابق سفیر جی پارتھا سارتھی قابل ذکر ہےں ۔ جلسہ کی صدارت کے لئے پنجاب پولس کے سابق سربراہ کے پی اےس گل کا نام تجوےز کےا گےا ہے ۔کرنٹ نےوز براڈکاسٹنگ پرائےوٹ لمٹےڈ کے ذرےعہ شائع اس کتاب مےں ےوں تو بحےثےت مصنف مسٹر نوےن کمار کا نام جلی حروف مےں شائع ہوا ہے تاہم مدارس اسلامےہ کے تعلق سے کتاب مےں شامل بعض مندرجات کو پڑھتے ہوئے بادی النظر مےں ےہ گمان گذرتا ہے کہ کسی رسوائے ملت نے زر پرستی کو راہ دےتے ہوئے مصنف کتاب کو بھر پور تعاون ہی نہےں فراہم کرا ےا ہے بلکہ بعض ابواب مکمل طور پر اسی نے تحرےر کر دےئے ہےں ۔ بہر حال اس کتاب کو منظر عام پر لاتے ہوئے مصنف کتاب نے قوم مسلمےن کی بد حالی پر گرےہ کےا ہے اور’ بھومےکا ‘ کے عنوان کے تحت درج اپنے خےالات کے درمےان بعض اےسے سنجےدہ سوالات کھڑے کئے ہےں جن سے ہر قاری ابتداً ےہ نتےجہ اخذ کرنے پر مجبور ہوگا کہ مصنف نے مدارس اسلامےہ کے تعلےمی نظام پر رےسرچ کا جوکھم اٹھا ےا ہے اور خامےوں اور خوبےوں پر اےماندارانہ طرےقہ سے روشنی ڈالنے کی کما حقہ کوشش کی ہے لےکن کتاب کے آخر تک پہنچتے ہوئے اسلام اور مدارس اسلامےہ کو نشانہ بنانے مےں کو ئی کمی باقی نہےں چھوڑی گئی ہے۔ حتی کہ مدارس پر غےر فطری جنسی عمل کو فروع دےنے ، دہشت گردوں کی اعانت کرنے اور ناجائز طرےقہ سے دولت اکٹھا کرنے کے سنگےن الزامات تک عائد کئے گئے ہےں جن سے مذہبی جذبات کا مجروح ہونا فطری ہے ۔اسے مصنف کتاب کی شاطرانہ فکر کہئے ےا کوئی دوسرا خوبصورت نام دے دےجئے کہ انہوں نے اپنے قلم کی ساحری بکھےرتے ہوئے ہندوستان مےں مدارس کی عظمت رفتہ کا ابتدا مےں بڑے ہی اےمانداری سے اعتراف کےا ہے بعد ازاں انہوں نے بعض سنجےدہ نوعےت کے سوالات کھڑے کئے ہےں ۔مثلا ًوہ درےافت کرتے ہےں کہ’ تقرےباً صدی بھر ہند کے تاج پر راج کرنے والا مسلم فرقہ پچھڑتا کےوں چلا گےا؟‘آگے وہ سوال کرتے ہےں کہ ان کی مالی، اقتصادی، تعلےمی اور معاشرتی ترقی کےوں نہےں ہو سکی؟ وہ ےہ بھی پوچھتے ہےں کہ کون ہے ذمہ دار اس عظےم قوم کے حالات کا؟ کس کے منافع کی بھےنٹ چڑھ گےا مسلم فرقہ کا بہبود؟ مسٹر نوےن کمار دعویٰ کرتے ہےں کہ انہےں سوالوں کا جواب تلاش کرتی ہے ےہ کتاب اور پردہ فاش کرتی ہے ان لوگوں کا جو اس قوم کی بے حالی اور بدحالی کے لئے ذمہ دار ہےں ۔لےکن سوالوں کے جواب کی تلاش کا عمل انجام دےتے ہوئے موصوف مدارس کو’جملہ غلاظتوں کا مجموعہ‘قرار دے گئے ہےں۔کبھی’ زی نےوز‘ کے ذرےعہ سنسنی خےزی پھےلانے والے نوےن کمار نے کتاب کو گےارہ ابواب مےں تقسےم کےا ہے جس کے علاحدہ علاحدہ عنوان قائم کئے ہےں۔ انہوں نے شروعات کےلئے ’اسلام مےں تعلےم کا عنوان‘ قائم کےا ہے۔ اس کے بعد’ اسلامک مدرسوں کی شروعات‘ ’تحریک آزادی مےں علماءکا کردار‘ جےسی سرخےوں کے تحت مدارس اسلامےہ کے کردار کو تسلےم کےا ہے۔ بعد ازاں ”مدرسوں کی سےاست“ سے اپنی مرےضانہ ذہنےت کے اظہار کی شروعات کی ہے اور ”اسلامی مدرسوں کا کھوکھلا نظام“ ”مدرسہ اور شدت پسندی“ ”اسلامی مدرسے اور دہشت گردی“ ”اسلامی مدرسوں کے نصاب“ اور ”مسلمان لڑکےوں کی تعلےم“ جےسے عناوےن کے تحت ہندوستانی مدارس کو قوم مسلم کےلئے جملہ خرافات اور مغلظات کی کلےد بناکر پےش کردےا ہے۔ کتاب کے دسوےں باب کا عنوان ہے:”جدےد تعلےم واحد ایک حل“۔ اس عنوان کے تحت مصنف نے جنوبی ہند کے مسلمانوں کی ہمہ گےر ترقی کا ذکر کرتے ہوئے شمالی ہند کے مسلمانوں کی بدحالی کےلئے ملی قےادت اور مدارس کو ذمہ دار قرار دےا ہے، مذہب پسندی کے رجحان پر شدےد تنقےد کی ہے اور مرےضانہ ذہنےت کا نقطہ¿ انجام وہاں دےکھنے کو ملتا ہے جہاں مصنف مسلمانوں کے مذہبی عقےدے کو بھی نہےں بخشتا اور اسے بھی اپنے عقل کی کسوٹی پر تولتے ہوئے ”خدا کی وحدانےت“ کے تصور کا مذاق اڑانے لگ جاتا ہے۔اےسے وقت مےں جبکہ ہندواحےاءپسند تنظےم آر اےس اےس بھی مسلمانوں سے راہ و رسم بڑھانے اورفرقہ وارانہ خےرسگالی کو فروغ دےنے کی بات کرے، کتاب مذکور مےں مذہبی جذبات سے بحث و تمحےص کے دوران ”خدا کی وحدانےت“ کے تصور کا مذاق اڑاےا جانا ےقےنا ایک نئے فتنے کو جنم دےنے کا محرک بن سکتا ہے۔لےکن اسے کےا کہئے کہ مصنف نے اظہار رائے کی آزادی کا نادرست استعمال کرتے ہوئے اےسے موضوعات پر بھی خامہ فرسائی کی ہے جس سے ملک کی گنگا جمنی تہذےب کا جنازہ نکلتا دکھائی دے رہا ہے۔”جدےد تعلےم واحد ایک حل“ کے عنوان کے تحت فاضل مصنف نے ایک جگہ ےہ لکھا ہے : ”مسلمانوں مےں جذباتی جارحیت اس وجہ سے بھی زےادہ ہے کےوں کہ وہ اسلام مےں دلےل کی گنجائش نہےں نکالتے۔ ان کا ےہ رٹارٹاےا محاورہ ہے کہ اسلام ہی آخری مذہب ہے، اللہ ایک ہے اور محمد(ﷺ) خدا کے پےغمبر ہےں۔(حضرت محمد کا ذکر کرتے ہوئے ﷺنہےں لکھا گےا ہے) اور قرآن خدا کی آخری کتاب ہے۔ اس بنےادی عقےدے پر کوئی تنقےد نہےں کرسکتا۔ دراصل ہر مسلمان کو اےام طفولےت مےں ہی ان خےالات کا گھول اس طرح پلادےا جاتا ہے کہ وہ اس سے الگ ہٹ کر سوچ بھی نہےں سکتا.... ہم ان محاوروںکو رٹنے کی بجائے اس سے آگے نکل کر سوچنے کی ہمت کرتے ہےں۔“مدراس اسلامےہ کے ذمہ داروں کو ”لٹےرا“ اور اردو کے خدمت گاروں کو ”فقےر“ قرار دےنے والی اس کتاب کے مصنف کو علی گڑھ مسلم ےونےورسٹی بھی ایک آنکھ نہےں بھارہی ہے۔ وہ جدےد تعلےم سے مدارس کے نصاب کو آراستہ کرنے کی وکالت تو کرتے ہےں لےکن دوسرے ہی لمحے علی گڑھ مسلم ےونےورسٹی کے ہاسٹلوں مےں قائم مساجد انہےں اس بات کے لئے مجبور کرتی ہےں کہ وہ انہےں اپنی جنبش تحریر کا حصہ بناڈالےں۔ چنانچہ وہ ذہنی فسطائےت کا شکار بنتے ہوئے رقمطراز ہےں: ”سوال اس بات کا بھی ہے کہ ملک کے اقلےتی اسکولوں ےا دانش گاہو ںمےں مرضی کے مطابق نتائج کےوں نہےں نکل پارہے ہےں۔ مثال کے طورپر علی گڑھ مسلم ےونےورسٹی کو ہی لےا جاسکتا ہے۔ اس کا پورا خرچ حکومت ہند برداشت کرتی ہے۔ وہاں کا ماحول بھی ملا نما نہےں ہے۔ پھر بھی وہاں کے طلباءاعلیٰ سطحی کمپٹےشن مےں کامےاب نہےں ہوپاتے۔ اس مےں حکومت کو تو ذمہ دار نہےں ٹھہراےا جاسکتا۔ اےسا شاےد وہاں کے اسلامی ماحول کو لے کر ہے۔ علی گڑھ مسلم ےونےورسٹی کے ہر ایک ہاسٹل مےں مسجد ہے۔ اس کے امام کو سرکاری خزانہ سے تنخواہ دی جاتی ہے۔ ےونےورسٹی احاطہ مےں مذہب اسلام کی تبلےغ کے لئے تبلےغی جماعت سرگرم ہے اور جماعت اسلامی کی طلباءتنظےم تو کافی بڑھ چڑھ کر حصہ لےتی ہے۔“ایک جانب مدارس اسلامےہ کے موجودہ نظام کو فرسودہ، بےہودہ اور قومی سلامتی کے لئے ضرر رساں بناکر پےش کرنا اور دوسری جانب علی گڑھ جےسے گہوارہ¿ علمی کے ماحول پر بھی اعتراض جتانا اور پھر مدارس اسلامےہ کو جدےد طرز پر ڈھالنے کی وکالت بھی کرنا کےا اخلاص پسندانہ تحقیق پر مبنی قدم ہے؟ ےہ سوال ”اسلامی مدارس....بے نقاب“ کے مصنف کے ذہنی تضادات کو ہی سامنے نہےں لاتا بلکہ مبصرےن کہتے ہےں کہ اس کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد فرقہ وارانہ منافرت پھےلنے کا بھی شدےد خطرہ لاحق ہے کےوں کہ کتاب کے بعض نکات مذہب اسلام پر براہ راست حملہ تصور کئے جاسکتے ہےں۔

No comments: