Thursday, May 20, 2010

اردوکے سب سے بڑے سرقے کو بے نقاب کرنے والی کتاب

’ڈاکٹر نارنگ اور مابعد جدیدیت

شاہدا لاسلام

معروف شاعر اور ادیب حیدر قریشی کی تازہ ترین کتاب ” ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور مابعد جدیدیت“ پےش نظر ہے۔ قبل اسکے کہ اس کتاب کے بارے مےں اپنے تا ¿ثرات کا اظہار کروں، اس بات کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ےہ کتاب کیوں اور کن حالات مےں مجھے دستیاب ہوئی! قصہ ےہ ہے کہ آج سے تقریباً اےک سال قبل ممب ¿ی سے نکلنے والے سہ ماہی ادبی رسالہ ”ا ©ثبات“(شمارہ۳) پر ناگاہ مےری نظر پڑ گئی۔رسالہ اتنا دیدہ زےب اور پر کشش تھا کہ ادب سے لا تعلق رہنے والے مجھ جےسے صحافی نے بھی اس کی ورق گردانی شروع کردی۔ اندر کے صفحات کی ترتیب و تنظےم بھی خاصی متا ¿ثر کن معلوم ہوئی۔ ابھی رسالے کی ظاہری خوبیوں کے سحر سے نکل بھی نہےں پایا تھاکہ اس مےں شامل اےک سرخی پر نگاہ ٹک گئی۔ سرخی کچھ اس طرح تھی: ” جدید ادب کے شمارہ نمبر ۲۱ کی کہانی(ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کی مہربانی در مہربانی)“۔ حیدر قرےشی کے تحریر کردہ اس مضمون کو مےں نے پڑھنا شروع کیا توپڑھتا ہی چلا گیا۔مےںمضمون نگار کے نام سے مانوس تو تھا، تاہم ان سے متعلق مےری معلومات نہےں کے برابر تھےں۔چنانچہ مضمون پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ موصوف جرمنی مےں مقیم ہےں اور وہاں سے ”جدید ادب“ نام کا اےک رسالہ بھی نکالتے ہےں۔ اس مضمون مےں انھوں نے جو کچھ تحریر کیا تھا اس کا خلاصہ ےہ تھا کہ ”جدید ادب“ کے شمارہ ۹، ۰۱ اور ۱۱ مےںعمران شاہد بھنڈر کے جو مضامےن ڈاکٹر نارنگ کی کتاب ’ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘ سے متعلق شائع ہوئے تھے اور جن مےں دلائل اور شواہد کے ساتھ ےہ ثابت کیا گیا تھا کہ ڈاکٹر نارنگ بہت بڑے پےمانے پر سرقہ کے مرتکب ہوئے ہےں، اس کے نتیجے مےں نارنگ صاحب نے رسالہ ’جدید ادب‘( جو دہلی کے اےجوکےشنل پبلشنگ ہاو ¿س کے زےر اہتمام شائع ہوتا ہے) کے شمارہ ۲۱ کی اشاعت مےں رخنہ ڈالنے کی غرض سے پبلشر پر ہر طرح کا دباو ¿ ڈالا اور اپنے ذاتی اثر و رسوخ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس شمارے پر اپنی سنسر شپ عائد کرنے سے بھی درےغ نہےں کیا۔اس معاملے کی پوری روداد لکھنے کے بعد صاحب مضمون نے کھلے ڈلے الفاظ مےں ےہ بھی تحریر کیا تھا کہ ” مےں حکومت ہند سے درخواست کرتا ہوں کہ اےک علمی کمےٹی بٹھائی جائے جو تحقیق کرے کہ نارنگ صاحب نے واقعی ےہ شرمناک سرقے کےے ہےں یا ان پر بے جا الزام ہےں۔ اگر وہ پاک صاف ثابت ہوں تومےں انڈیا کے قانون کے مطابق بخوشی ہر سزا بھگتنے کے لےے تیار ہوں“ ےہ تفصیل پڑھ کر حیرت کے ساتھ افسوس بھی ہوا کہ اردو کا ادبی ماحول اتنا پست ہوگیا کہ اےک نامی گرامی صاحب قلم اپنے اوپر لگے سرقہ کے الزام کی تردید علمی سطح پر کرنے کے بجائے سرقہ کی بات سامنے لانے والوں کا ناطقہ بند کرنا چاہتا ہے۔اس حیرت اور افسوس کی ملی جلی کےفیت مےں ، مےں نے اس مضمون کو ” ہندوستان اےکسپرےس“ کے وےب اےڈےشن مےں شامل کرلیا۔ خیال تھا کہ علمی حلقوں سے اس متنازعہ مضمون پر جو رائے بھی آئے گی اسے صحافتی دیانتداری کے تحت نذر قارئےن کر دیا جائے گا، مگر ےہ کیا؟ نارنگ صاحب کی حمایت پر کمر بستہ ٹیم حرکت مےں آگئی اور’ ہندوستان اےکسپرےس‘ کے ایڈیٹر احمد جاوید کو اس بات کے لےے آمادہ کرلیاگیا کہ اس مضمون کو ویب سائٹ سے ہٹا دیا جائے۔چنانچہ اےڈےٹر موصوف نے اس’ کارخیر‘ کو انجام دےنے کے لئے مجھے ہدایت جاری کردی ۔گو کہ حفظِ مراتب کا تقاضہ تھا کہ ’فرمانِ مدیر‘ کو ’فرمانِ خدا ‘ سمجھ کر سرتسلےم خم کردیا جائے لےکن مےں نے بھی اپنے ذاتی استحقاق کو بطور ڈھال استعمال کیا اور جواباً ےہ عرض کیا کہ آپ کا حکم اپنی جگہ، تاہم کسی مضمون کو مےں ناجائز دباو ¿ کے تحت نہےں ہٹا سکتا وےب اےڈےشن کے جملہ امور مجھ سے متعلق ہےں اور چونکہ آپ یا ادارہ کے دیگر افراد کی (ہندوستان اےکسپرےس) وےب سائٹ کے حوالے سے کوئی عملی شراکت نہےں ہے، لہذا وےب سائٹ مےں کیا چےزےں دینی ہےں اور کیا نہےں، اس تعلق سے کسی بھی مشورے کی مجھے ضرورت نہےں۔ہاں! ےہ ےقین دہانی مےں نے اےڈیٹر کو ضرور کرائی کہ اس مضمون کی تردید مےں اگرکسی گوشے سے کچھ موصول ہوا تو اسے بھی انٹر نےٹ اےڈیشن مےں اسی اہتمام سے شامل کیا جائے گا جس طرح حیدر قریشی کی تحریر شائع کی گئی ہے۔اس طرح نارنگ صاحب کے حامیوں کا غیر اخلاقی حربہ ناکام ہوا اور مدیر محترم خاموش ہوگئے۔ نارنگ صاحب کے حامیوں کی طرف سے اس غیر متوقع دباو ¿ نے تھوڑی دیر کے لےے مجھے ذہنی خلجان مےں ضرور مبتلا کیا تاہم اس کا ےہ فائدہ ہوا کہ اس کے بعد حیدر قریشی کے مضمون کی حقانیت مجھ پر پوری طرح واضح ہوگئی اور ’ہندوستان اےکسپرےس‘ کے ویب ایڈیشن مےں اس کی اشاعت پر مجھے اےک طرح کی طمانیت کا احساس ہوا۔اس دوران حیدر قریشی کو ’ہندوستان اےکسپرےس‘ کے وےب اےڈےشن مےں اپنے مضمون کی اشاعت کا علم ہوا تو ’شکرےہ‘ پر مبنی ان کی اےک ای۔ مےل ملی جس مےں دیگر باتوں کے علاوہ اس خدشے کا اظہار بھی تھا کہ عجب نہےں آپ پر ےہ دباو ¿ ڈالا جائے کہ وےب سائٹ سے اس مضمون کو ہٹادےں، مےں نے فوراً جواب دیا کہ خاطر جمع رکھےں، وہ مرحلہ آکر گزر چکا ہے، آپ کی تحریر وےب سائٹ پر موجود رہے گی،انشا اللّٰہ۔اس طرح برقی مراسلت کے ذریعہ حیدر قریشی صاحب سے جو رابطہ قائم ہوا تو اس کے نتیجے مےں اسی سلسلے کی ان کی اےک اور تحریر ”پروےزی حےلوں کی روداد“ ہندوستان اےکسپرےس کے ویب ایڈےشن مےں شائع ہوئی اور ےہ اطلاع بھی ملی کہ نارنگ صاحب کے سرقوں کی بابت مدیر موصوف کی اےک کتاب عنقریب منظر عام پر آنے والی ہے جس کی اےک کاپی مجھے ارسال کی جائے گی اور مزےد اےک کاپی ’ہندوستان ایکسپرےس‘ کے پرنٹر و پبلشرپرویز صہےب احمد صاحب کے لےے بھےجی جائے گی کیونکہ اس مےں بطور خاص ’ہندوستان اےکسپریس‘ کا شکرےہ ادا کیا گیا ہے۔ اور پھر وہ کتاب ( بعنوان ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور ما بعد جدیدیت) مجھے بذریعہ ڈاک موصول ہوگئی۔اس کے مشمولات پر اےک نظر ڈالی تو ےہ بات سمجھ مےں نہےں آئی کہ اس کا نام مابعد جدیدیت سے کیوں جوڑا گیا جبکہ اس کا اصل اور واحد موضوع ڈاکٹر نارنگ کا ’سرقہ ‘ہے۔ممکن ہے اس مےں کوئی مصلحت دخیل رہی ہو۔ وہ جو کہتے ہےں کہ دودھ کا جلا چھاچھ پھونک پھونک کر پےتا ہے، تو اس کی روشنی مےں اےک گمان ےہ گزرتا ہے کہ شاید اس ڈرسے ےہ نام رکھا گیا ہوکہ ’سرقہ‘ کے عنوان سے چھپنے والی ےہ کتاب کہےں نارنگ صاحب کے عتاب کا شکار نہ ہوجائے، اسلئے ایسا نام رکھا جائے کہ کتاب طباعت کے مراحل سے بعافیت گزر کر قارئےن تک پہنچ جائے۔ بہرحال ’نام مےں کیا رکھا ہے ‘ سوچ کر مےں نے اس کے سارے مضامین پڑھ ڈالے، اور اندازہ ہوا کہ حیدر قریشی اس کتاب کے مصنف بھی ہےں اور مو ¿لف بھی، کیونکہ نارنگ صاحب کے سرقوں سے متعلق تحریر کردہ اپنے مضامین کے علاوہ اس موضوع پر سامنے آنے والے اور کئی مضامین بھی انھوں نے اس کتاب مےں شامل کےے ہےں۔ اس کتاب مےں شامل تمام تحریروں کو پڑھنے کے بعد ’سرقہ‘ سے متعلق سارا قضیہ کچھ اس طرح سامنے آتا ہے کہ پھر کسی شک و شبہے کی گنجائش باقی نہےں رہتی کہ ڈاکٹر نارنگ کی کتاب ’ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘ سرقوں کا مجموعہ ہے۔حیدر قریشی کی زےر نظر کتاب ہمےں ےہ بتاتی ہے کہ اس حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لےے ڈاکٹر نارنگ کے حامیوں نے جو بے تکی باتےں سپرد قلم کےں، یا انتہائی بھونڈے انداز مےں خود نارنگ صاحب نے جو دوسرے غیر علمی حربے استعمال کےے ان سے سرقوں کے الزام کی تردید تو خےر کیا ہوتی،ہاں اتنا ضرور ہوا کہ ان ساری چےزوں نے اس معاملے کو اور ہوا دی ، ےہاں تک کہ مجھ جےسے ادب سے بے تعلق شخص کو بھی اس کی پوری واقفیت ہوگئی مرض بڑھتا گیا جوں جوںدواکی ،اور اس پر مستزاد نارنگ صاحب کی مسلسل خاموشی نے سرقے کی تحقیق کرنے اور اسے اردو عوام کے سامنے لانے والوں کا کام آسان کردیا۔ زےر تبصرہ کتاب سے ہمےں ےہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ نارنگ صاحب کے حامیوں نے کج بحثی سے کام لےتے ہوئے اس پورے قضےے کو نارنگ اور فاروقی کے مابےن تنازعہ کا نام دینا چاہا تو کبھی ےہ کہہ کر سرقوں کی حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی کہ حیدر قرےشی فلاں فلاں بات کی بنیاد پر نارنگ صاحب کے تئےں اپنے دل مےں پرخاش رکھتے ہےںاور ےہ سارا معاملہ اسی کدورت کی دین ہے وغیرہ وغیرہ۔جب ےہ سارے حربے غیر مو ¿ثر ثابت ہوئے تو پھر اسے مذہبی تعصب کا نام دے کر ےہ کہا گیا کہ ڈاکٹر نارنگ جےسے غیر مسلم ادیب کو کچھ متعصب قسم کے مسلمان خواہ مخواہ ہدف ملامت بنا رہے ہےں۔لےکن اےک تجربہ کار مدیر اور زمانہ شناس ادیب حیدر قرےشی نے معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس سارے قضےے کو کچھ اس خوش اسلوبی سے Manage کیا کہ سرقوں کا اصل معاملہ نظروں سے اوجھل نہ ہوسکا۔ بلا شبہ سرقوں کی حقیقت کو سامنے لانے کی غرض سے عمران شاہد بھنڈر نے مغربی مفکرےن کی متعلقہ کتابوں کو کھنگالنے مےں جو عرق رےزی کی اور جو کلےدی رول ادا کیا اس کے لےے وہ ہمےشہ یاد کےے جائےں گے ، بلکہ ےہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اےک اردو کے طالب علم کے سامنے جب جب نارنگ
صاحب کا نام آئے گا تو اس کے ساتھ اسے عمران شاہد بھنڈر کی یاد بھی ضرور آئے گی،تاہم ےہ اےک حقیقت ہے کہ بھنڈر کی ےہ ساری کاوشےں اس مو ¿ثر اور مدلل انداز مےںشاید سامنے نہ آپاتیں اگر انھےں حیدر قریشی جیسا تجربہ کاراور دھن کا پکا ادیب اور مدیر نہ ملتا۔ڈاکٹر نارنگ کے حامیوں نے اپنی بساط بھر پوری کوشش اس بات کی کرلی کہ ادھر اُدھر کی باتوں مےں الجھا کر اصل موضوع کو گول کردیا جائے، لےکن حیدر قریشی نے پوری فہم و فراست سے کام لیا، اور ان الجھاووں سے بچتے بچاتے پوری حکمت اور تدبر کے ساتھ اپنی گاڑی آگے بڑھاتے رہے، ےہاں تک کہ سرقہ بے نقاب ہوکر رہا اور اےک عام قاری سے لے کر اردو کے خاص ا لخاص ادیب کو ےہ نتیجہ اخذ کرنے مےں کوئی تا ¿مل نہےں رہا کہ ”عمران شاہد بھنڈر کے نشان زد کےے بے شمار صفحات صاف بتاتے ہےں کہ پروفیسر نارنگ نے سو فیصد لفظی ترجمہ کر کے ’سرقہ‘ کیا ہے“( زبیر رضوی، سہ ماہی ’اثبات‘، شمارہ۵۔۴)۔ نارنگ صاحب کے وہ مداح جو ان کی اس ”شاہکار تصنےف“ کو حالی کے’ مقدمہ شعرو شاعری‘ کے بعد اردو تنقید کا سب سے بڑا ’کارنامہ‘کہہ رہے تھے ان کے وہم و گمان مےں بھی ےہ بات نہےں ہوگی کہ اس ’شاہکارتصنےف‘ کو محض چند برسوں کے اندر عمران شاہد جےسا اےک نسبتاً غیر معروف لےکن ذہےن اور محنتی محقق اےک جی دار مدیر کے تعاون سے( نارنگ صاحب کے’مقام‘ و ’ مرتبہ‘ سے مرعوب ہوئے بغیر) سرقوں کا پلندا ثابت کرکے رکھ دے گا۔ ےہ کتاب ہمےں ےہ بھی باور کراتی ہے کہ اس پورے دوڈھائی سال کے عرصے مےں جبکہ سرقہ والی بات موضوع سخن بنی ہوئی تھی،ڈاکٹر نارنگ کے حامیوں نے حیدر قریشی کو زےر کرنے کے لےے ہر حربے استعمال کےے، سر زمےن ہند و پاک سے لے کر کناڈا، امرےکہ اور انگلےنڈ ہر طرف سے ان پر تابڑ توڑ حملے ہوئے لےکن ا نھوں نے اپنی جانب سے پوری بردباری کا ثبوت دیا ، اپنے خلاف لکھی گئی بے سروپا باتوں کو پڑھ کر مشتعل نہےں ہوئے بلکہ ان باتوں کا مدلل جواب دھےرج کے ساتھ مختصر طور پر دےتے رہے، ےہ سمجھتے ہوئے کہ اگر ان بے ہودہ باتوں کو طول دیا گیا تو سرقہ والی بات پس پشت چلی جائے گی ۔اپنے قلم کو غیر ضروری طور پر جذ باتی ہونے سے بچائے رکھا، نارنگ صاحب کا ذکر جب بھی کیا انکے مرتبے کا خیال رکھا۔ہاں، جب نارنگ صاحب نے ’جدید ادب‘ کے شمارہ ۲۱ کی اشاعت مےں انتہائی بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے رخنہ اندازی کی تو اس کی روداد تحریر کرتے ہوئے حیدر صاحب کا قلم مضمون کے اخیر مےں قدرے جذ باتی ہوگیا۔اسی طرح انگلےنڈ کے طبا طبائی نام کے کسی شخص نے جب ان کے خلاف اوٹ پٹانگ باتےں لکھےں تو اس کا ذکر کرتے ہوئے بھی حیدر صاحب اپنی تحریر مےں برہم نظر آتے ہےں، ےہاں تک کہ اس شخص کا نام لےنا بھی گوارا نہےں کرتے ،لےکن ےہ خفگی یا برہمی عےن فطری ہے۔ جب کسی سے ناحق اذیت پہنچتی ہے تو نہ چاہتے ہوئے بھی تحریر مےں کچھ نہ کچھ درشتی آہی جاتی ہے۔ مختصر ےہ کہ حیدر قریشی کی زےر تبصرہ کتاب نہ صرف ےہ کہ ’مشرقی شعریات‘ کے حوالے سے نارنگ صاحب کے سرقوں کی قلعی کھول رہی ہے بلکہ لسانیات کے مےدان مےں بھی پروفیسر موصوف نے اب تک جو کام کےے ہےں ان کی اصلیت کو بھی مشکوک بتاتے ہوئے ےہ اعلان کر رہی ہے کہ ” لسانیات پر نارنگ صاحب کا سارا کام بھی’ مشرقی شعریات‘ جےسا ہی نکل آیا ہے۔ جب وہ سرقے بے نقاب ہوں گے تو اردو دنیا خود دےکھ لے گی“۔ یقین ہے کہ اردو ادب کے اب تک کے سب سے بڑے سرقہ کو سامنے لانے والی اس کتاب کا علمی حلقے مےں بڑے پےمانے پر خیر مقدم ہوگا اور اس کا ذکر اس زبان کی ادبی تاریخ مےں پورے اہتمام سے کیا جائے گا، اور سب سے اہم بات ےہ ہے کہ اس کے مندرجات کی روشنی مےں ڈاکٹر نارنگ کا مقام و مرتبہ نظر ثانی کا محتاج ہوگیا ہے۔ کتاب کی ظاہری ہےئت ےہ بتاتی ہے کہ انتہائی عجلت مےں طباعت کے مرحلے سے گزری ہے، تاہم صاف ستھری اور کمپوزنگ کی غلطیوں سے تقریباً پاک ہے۔سر ورق پر ڈاکٹر نارنگ کی اےک (حسب حال) تصویر بہت کچھ کہتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ڈےڑھ سو صفحات پر مشتمل ےہ کتاب سروَر اکادمی ، مغربی جرمنی کے زےر اہتمام شائع ہوئی ہے اور اس کی قیمت ۰۵۱ روپے ہے۔اس کے حصول کے لئے حیدر قرےشی سے بذرےعہ ای۔مےل اس پتے پر رجوع کیا جاسکتا ہے:
haider_qureshi2000@yahoo.com ٭٭٭

Saturday, February 9, 2008

राज की गुंडागर्दी

راج کی زہر افشانی حکومت مہاراشٹر کی مردانگی پرحملہ؟
ہاتھوںمیں چوڑیاں، پیروںمیں بیڑیاںآخرکیوں؟؟
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مہاراشٹر حکومت نے اپنے ہاتھوں میں چوڑیاں پہن رکھی ہیں اور امن وقانون کے پاسبانوں کے پیروں میں بیڑیاں ڈال دی گئی ہیں جبھی تو مہاراشٹر میں راج ٹھاکرے کی غنڈہ گردی بارباراپنے جلوے دکھارہی ہے ، نفرت کی آبیاری کی جارہی ہے ، علاقائی عصبیت کو ہوا دیا جارہا ہے، مراٹھی اورغیر مراٹھی کی تفریق کو سامنے لاتے ہوئے مخصوص طبقہ کی تائید حاصل کرکے شمالی ہند کے لوگوںکے خلاف ہرزہ سرائی کی کوشش نقطہ عروج پر پہنچائی جارہی ہے اور مہاراشٹر کی رائے عامہ کوعلیٰ الاعلان شمالی ہندوستان کے لوگوں پر حملے کےلئے اکسایاجارہاہے، اس کے باوجود نفرت کا سودا گر قانون کے شکنجے سے پوری طرح آزاد ہے اوراپنی غنڈہ گردی میں مصروف ہے پھربھی کسی طرح کی تادیب کی تلوار اس پر نہیں لٹکائی جارہی ہے تو اس سے کیا یہ پیغام نہیں جاتا کہ مہاراشٹرکی انتظامیہ اور وہاں کی حکومت نے اپنے ہاتھوںمیں چوڑیاںاور پیروں میں بیڑیا پہن یا ڈال رکھی ہیں؟ یہ سوال اس وجہ سے قابل توجہ ہے کیونکہ شمال وجنوب کا یہ معاملہ بڑھتا ہوا ممبئی سے باہر نکل چکا ہے اورمہاراشٹر کے کونے کونے میں نفرت کا یہ پیغام مراٹھی اور غیر مراٹھی لوگوں کے درمیان ایک خط فاصل کھینچ رہا ہے۔ ایک ایسا فاصلہ جس کو مٹانے میں شاید برسوں لگ جائے۔ باوجود اس کے کہ نفرت کی دیوار کو پاٹنا ممکن نہ ہوسکے۔ لہٰذا ایسے حالات کے درمیان نفرت کی سوداگری کی کوششوںکوپہلی فرصت میں بزور بازو دبانے کی ضرورت تھی لیکن مہاراشٹر کی حکومت نے اس کی جرات نہیں دکھائی۔ اس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ حکومت مہاراشٹر یا تو راج ٹھاکرے کی غنڈہ گردی کو اخلاقی تائید فراہم کرارہی ہے یا پھر حکومت راج ٹھاکرے سے نمٹنے کے معاملہ میں خود کو بے دست وپا محسوس کررہی ہے۔ حکومت کو یہ خطرہ درپیش ہے کہ اگر راج ٹھاکرے کے خلاف کسی طرح کی کارروائی کی گئی تو مہاراشٹر میں بڑی خونریزی ہوسکتی ہے۔ اگر اس اندیشے کے پیش نظرراج کے خلاف کارروائی سے پرہیز کیا جارہا ہے تواس کا صاف مطلب یہی ہے کہ مہاراشٹر کی حکومت انتہائی بزدل اور فرض ناشناس ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس حکومت میں یہ جرات نہ ہو کہ وہ امن وقانون کی صورت حال سے نمٹنے کے معاملے میںمردانگی کا ثبوت دے سکے کیا اسے حکمرانی کا حق حاصل ہے؟ اس سوال پر سنجیدہ بحث کی ضرورت درپیش ہے کیونکہ علاقائی تعصب کو بڑھاوا دینے اور شمالی ہندوستان کے خلاف اپنی تقریروں اور تحریروں کے توسط سے منافرت پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی سے گریز دوسروں کو بھی غلط راستے کا راہی بنا سکتا ہے۔ ایک وقت تھا جب مہاراشٹر میں نفرت کا ایک ہی سوداگر ہواکرتا تھا جسے بال ٹھاکرے کے نام سے جانا جاتا تھا۔بال ٹھاکرے نے مہاراشٹر کی سرزمین پر منافرت کو ہوا دینے کے لیے کس کس قسم کی حرکتیں کیں ،یہ ہر کسی کو معلوم ہے باوجود اس کے ان کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنا فرض نبھانے میں جو کوتاہی دکھائی وہ بھی سبھوں کے سامنے ہے۔ مہاراشٹر کا فرقہ وارانہ فساد نفرت کے اسی سوداگر کی کارستانی ہے۔ یہ ہر کوئی جانتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی نفرت کے اس سوداگر کو بے لگام چھوڑ دیا گیا اور نتیجہ کے طور پر امن وقانون کی پامالی بار بار مہاراشٹر کی فضا کو مکدر بناتی رہی۔ اب بال ٹھاکرے کا بھتیجہ راج ٹھاکرے انہیں کے نقش قدم پر آگے بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس نے نفرت کی آگ کو بھڑکانے کے لیے اپنے چچا سے تھوڑا الگ ہٹ کر ماحول سازی کی کوشش کی ہے اوربھرپور عوامی تائید کے حصول کے لیے مراٹھی ازم کا نعرہ بلند کیا ہے۔ لیکن اگرچچا اور بھتیجے کی فکر کو گہرائی کے ساتھ پرکھا اور تولا جائے تو ہم سمجھتے ہیںکہ دونوں ہی نفرت کیسوداگری میں کم وبیش ایک ہی راستے کے راہی دکھائی دے رہے ہیں۔اسی کے ساتھ یہ تلخ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ جس طرح چچا بال ٹھاکرے کے خلاف کارروائی کے معاملے میں حکومت مہاراشٹر نے اپنے ہاتھوں میں چوڑیاں پہن رکھی تھیں ،بھتیجے راج کے خلاف بھی کارروائی کے معاملے میں یہی کیفیت دیکھنے کو مل رہی ہے۔یہ سانحہ حکومت مہاراشٹر کے لیے چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ایک شخص واحد حکومت کی مردانگی کو للکار رہا ہو باوجواد اس کے حکومت اس کا بال بیکا کرنے کی بھی جرات نہیں رکھتی ہو اور نتیجہ کے طور پرعلاقائی عصبیت کا زہر زہر ہلاہل بن کر مہاراشٹر میںخونریزی کو دستک دے رہا ہو۔ یہ مقام غور بھی ہے اور مقام شرم بھی ۔

Thursday, February 7, 2008

राज की आग में खन्ना का घी

راج کی’آگ‘میں کھنہ کاگھی
علاقائی عصبیت کے تعلق سے ممبئی میں بھڑکائی جانے والی آگ میں تیجندر کھنہ کا یہ بیان گھی کا کام کرگیا ہے کہ شمالی ہند کے لوگ ٹریفک ضابطہ کی پاسداری نہیں کرتے یا یہ کہ وہ ٹریفک کے اصول کو نبھانے کے معاملے میں قانون شکن ہوتے ہیں۔ ایل جی کا یہ بیان حالانکہ کسی ایسے مقصد کے لیے سامنے نہیں آیا ہے جسے علاقائی عصبیت قرا ر دیا جاسکے لیکن ایسے سیاق وسباق کے درمیان دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر نے شمالی ہند کے لوگوں کو ہدف تنقید بنایا جس کا شدید ردعمل سامنے آنا فطری ہے۔ ایسے حالات کے درمیان جب کہ راج ٹھاکرے کی لگائی ہوئی آگ سے مہاراشٹر تپ رہا ہو تیجندر کھنہ کو چاہئے تھا کہ اس میں گھی ڈالنے کا کام ہرگز نہ کرتے ۔یہ موقع ہرگز ایسابھی نہیں تھا کہ اس قسم کے تبصرے کیے جاتے جو بادی النظر میں ہتک آمیز یا توہین آمیز قرار پاتے۔ اسے ہم عزت مآب لیفٹیننٹ گورنر کی عالمانہ بصیرت وبصارت کی کمی ہی قرار دے سکتے ہیں کہ انہوں نے ایک ایسا ریمارک چھوڑا جس کے بعد راج بھون کو یہ بتانے میں خفت کا سامنا کرنا پڑگیاکہ ایل جی کی جائے پیدائش کیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ عزت مآب گورنر نے اپنے اوپر برسنے والی تنقیدوں کے تیر سے گھائل ہونے کے بعد وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے اس شرمندگی کو بہرطور دور کرنے کی کوشش کی کہ ان کے بیان کومیڈیا کے لوگوں نے توڑ مروڑ کر پیش کیا۔ یہ پہلا موقع نہیں جب کسی سرکردہ شخص کی جانب سے جاری ہونے والے بیان صفائی کے توسط سے اپنے دامن کو صاف اور پاک دکھانے کی خاطر میڈیا کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہو۔ اطلاعاتی انقلاب کے برپا ہوجانے کے بعد میڈیا کے حمام میں اکثر صاحبان سیاست ننگے بھی ہوتے رہے ہیں کیونکہ جیسے ہی وہ یہ کہہ کر گلو خلاصی چاہتے ہیں کہ میڈیا نے غلط تناظر میں ان کے بیان کو پیش کیا، الیکٹرانک میڈیا ان کے سابقہ بیان کو من وعن نشر کرنے سے نہیں چوکتا۔ حالانکہ ایل جی کے بیان کو اگر ممبئی کے معاملے سے جوڑ کر نہ دیکھا جائے تو انہوں نے کوئی ایسا ریمارک نہیں چھوڑا جسے کسی بھی طرح سے طعن وتشنیع کا شکار بننا پڑے یا جس سے علاقائیت کی بو محسوس ہو۔لیکن اسے ہم محترم کھنہ کی شخصیت کی جانب سے زیر اظہار لایا جانے والا نامحترم قول ہی کہیں گے کیونکہ انہوں نے راج کی آگ میں گھی ڈالنے کا براہ راست نہ سہی بلا واسطہ طور پر اور انجانے میں ہی غلطی سرزد کی۔سوال یہ ہے کہ مسٹر کھنہ کو اس کی کیا ضرورت درپیش ہوئی تھی کہ وہ اہل جنوب اور اہل شمال کا موازنہ کرنے لگ جائیں اور احوال واقعی کے تناظر میں یہ حقیقت پیش کرنے کی کوشش کریں کہ جنوب والوں کے مقابلے اہالیان شمال قانون شکن ہیں ۔ اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں کہ عزت مآب لیفٹیننٹ گورنر نے یہ بیان کس تناظر میں دیا۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ان کے منقولات اور فرمودات سے کیا نتیجہ اخذ کیا گیا؟منشی کی برہمی، لالو کی گرج، نتیش کا برسنا اور راج ٹھاکرے کا پھولے نہیں سمانا اور خوشی میں بدمست ہوجانا آخر کیا پیغام دے رہا ہے؟دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر تیجندر کھنہ کے اس قول کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی صاحب فہم یہی نتیجہ اخذ کرے گا کہ وہ مصلحت اندیشی سے عاری ایک ایسے شخص ہیں جنہیں قومی منظر نامہ میں رونما ہونے والے تغیر وتبدل اور مثبت و منفی نتیجہ خیزی کا بھی کوئی ادراک نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوںنے بحیثیت لیفٹیننٹ گورنر ایک ایسا بیان داغ ڈالا جو آج مضحکہ خیزی کی علامت بن رہا ہے اور جب راج بھون سے یہ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ محترم تیجندر کھنہ کی جائے پیدائش کیا ہے تو راج بھون خفت کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے جائے پیدائش بتانے سے معذوری ظاہر کردیتا ہے۔جہاں تک تیجندر کھنہ کی فہم وفراست کاتعلق ہے توانہیں اس کسوٹی پرپرکھنے کے بعد پہلے بھی ایک ناکام شخصیت کے طورپر دیکھا جاچکا ہے۔ قارئین کے حافظے میںیہ بات ضرور ہوگی کہ یوم جمہوریہ کے تعلق سے راجدھانی میں نظم ونسخ کی برقراری کے تعلق سے کیے جانے والے اقدام کے درمیان موصوف نے دہلی میں مقیم لوگوں کے لیے شناختی کارڈ کو لازم قرار دینے کا اعلان کرتے ہوئے شناخت کے مسئلے کوچوں چوں کا مربہ بنادیا تھا۔ آخر کارکھنہ نے اپنے قدم پیچھے کھینچے اور تب کہیں جاکرشناخت کے تعلق سے اٹھنے والا مخالفتوں کا طوفان تھم سکا۔قارئین کو یہ بھی یاد ہوگا کہ دہلی کی وزیر اعلیٰ محترمہ شیلا دکشت نے بھی مئی کے اوائل میں ایسا ہی ایک بیان داغ ڈالا تھا جس سے راست طور پر بہار اور یوپی کے لوگ ناراض ہوگئے تھے اوروزیر اعلیٰ دہلی کو دہلی پر ایک بوجھ بھی قرار دے دیا گیا تھا۔ برسبیل تذکرہ ان باتوں کوزیر موضوع لائے جانے کا مقصد یہ ہے کہ صاحبان سیاست اورارباب اقتدار کو یہ تنبیہ کی جاسکے کہ وہ اپنے منقولات اور فرمودات کے توسط سے سماج اور معاشرے میں نفرت کی بیج بونے کے بجائے اخوت و بھائی چارگی کا درس دینے کی کوشش کریں۔ اگر ان کی استطاعت اس لائق نہیں ہے کہ وہ معاشرے کو بہتری کی راہ پر گامزن کرسکیں تو ہمارا ان سے یہ مشورہ ہے کہ وہ ایسے عہدہ¿ جلیلہ کوفوراً خیر بادکہہ دیں تاکہ آئینی عہدوں کا وقار اور اعتبار بحال رہ سکے۔ ایک زمانہ تھا جب لوگ بڑوں کی قدر کرنا جانتے تھے اور اعلیٰ عہدوں پر فائز صاحبان کیتعظیم وتکریم بہرطور برقراررکھی جاتی تھی لیکن بدلتی قدروں کے ساتھ ساتھ اب یہ صورت حال پیدا ہوچکی ہے کہ عہدوں کے اوج ثریا پر بیٹھے لوگ بھی اگر ذرا سی لغزش کر بیٹھتے ہیں تو ان کا دامن کھینچنا ، ان پر طرح طرح کے الزامات عائد کرنا، ان کی کردار کشی کرنا اور انہیں نامعقول اور ناہنجار قرار دیناعام سی بات ہوگئی ہے۔ ایسے حالات کے درمیان اعلیٰ عہدے اور مناصب بار بار شرمسار ہوتے رہے ہیں لہٰذا کرسی پر بیٹھے لوگوں کو چاہئے کہ وہ بھی منصب کا خیال رکھیں اور بٹھانے والوں کو بھی چاہئے کہ وہ ایسے افراد کو متمکن کریں جو اہل ہو اور اپنی کج فہمی اور کج نگاہی کے ذریعہ باوقار عہدوں کو داغدار یا شرمندہ نہ کرے۔

Tuesday, February 5, 2008

hindustani madrase benaqab

مدارس اسلامیہ کو جملہ خرافات و مغلظات کا مجموعہ

قراردینے والی کتاب’اسلامک مدرسےبے نقاب‘کااجرا



شاہدالاسلام

نئی دہلی:ہندوستان کے تقرےباً تمام دہشت گرد اسلامی مدارس سے وابستہ ہےں۔ ملک کی سےاسی قےادت اور جمہورےہ ہند کی تقدےر سنوارنے والااکثرےتی طبقہ اس حقےقت سے انجان کےوں ہے؟ سرحدی خطوں مےں حشرات الارض کی طرح نمودار ہو نے والے مدارس آخر کےا پےغام دےتے ہےں ؟ وہاں جاری سرگرمےوں پر ہر شخص خاموش کےوں ہے؟ جب تک مدرسوں مےں اسلامی تعلےم کے نام پر مذہبی تعلےم دی جاتی رہے گی اس وقت تک دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہےں .... لہذا موقع گنوائے بغےر حکومت ہند کو چاہئے کہ ہندوستان کی وحدت و سا لمےت کو برقرار رکھنے کےلئے کسی بھی طرح کی مذہبی تعلےم کو جس سے انتہا پسندی، شدت پسندی اودہشت گردی کو شہ ملتی ہو مکمل طور پر اس پر پابندی عائد کرے۔ےہ زہر افشانی معروف ہندی صحافی نوےن کمار کی نو تصنےف ’ اسلامی مدرسے ....بے نقاب‘ مےں کی گئی ہے جس کا اجراءکل آر اےس اےس چےف کے سی سدرشن کرنے والے ہےں ۔حےرت کی بات ےہ ہے کہ مولانا مسعود مدنی مہمان ذی وقار کی حےثےت سے شرےک تقرےب ہوکر ان تمام الزامات کی اخلاقی تصدےق فرمائیںگے۔جبکہ اس سلسلے میں تصدیق کیلئے رابطہ قائم کرنے پر انہوںنے ایک تحریری وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ دعوت نامہ میںمیرانام غلط استعمال ہوا ہے۔مو لانا مدنی اےک اےسے مذہبی خانوادے سے تعلق رکھتے ہےں جسے نہ صرف ےہ کہ ہندوستانی مسلمانوں کے درمےان وقار و اعتبار حاصل ہے بلکہ عالم اسلام مےں بھی انہےں بنظر استحسان دےکھا جاتا ہے۔ موصوف شےخ الاسلام مولانا حسےن احمد مدنی کے پوتے اور فدائے ملت مولانا اسعد مدنی کے صاحبزادے ہےں جنہےںمدارس اسلامےہ کے نظام کو ملک بھر مےں فروغ دےنے کے حوالے سے ےاد کےا جا تا ہے ۔تقرےبا 300صفحات پر مشتمل ےہ کتاب ہری اوم آفسےٹ پرےس سے طبع ہو ئی ہے جس کا پےش لفظ فرقہ وارانہ منافرت پھےلانے کےلئے بدنام ممبر پارلےمنٹ ےوگی آدتےہ ناتھ نے تحرےر کےا ہے ۔ رسم اجراءکی تقرےب ہندی بھون مےں منعقد ہوگی ۔ جن دےگر اہم شخصےات کواس پروگرام مےں مدعو کےا گےا ہے ان مےںسابق سفیر جی پارتھا سارتھی قابل ذکر ہےں ۔ جلسہ کی صدارت کے لئے پنجاب پولس کے سابق سربراہ کے پی اےس گل کا نام تجوےز کےا گےا ہے ۔کرنٹ نےوز براڈکاسٹنگ پرائےوٹ لمٹےڈ کے ذرےعہ شائع اس کتاب مےں ےوں تو بحےثےت مصنف مسٹر نوےن کمار کا نام جلی حروف مےں شائع ہوا ہے تاہم مدارس اسلامےہ کے تعلق سے کتاب مےں شامل بعض مندرجات کو پڑھتے ہوئے بادی النظر مےں ےہ گمان گذرتا ہے کہ کسی رسوائے ملت نے زر پرستی کو راہ دےتے ہوئے مصنف کتاب کو بھر پور تعاون ہی نہےں فراہم کرا ےا ہے بلکہ بعض ابواب مکمل طور پر اسی نے تحرےر کر دےئے ہےں ۔ بہر حال اس کتاب کو منظر عام پر لاتے ہوئے مصنف کتاب نے قوم مسلمےن کی بد حالی پر گرےہ کےا ہے اور’ بھومےکا ‘ کے عنوان کے تحت درج اپنے خےالات کے درمےان بعض اےسے سنجےدہ سوالات کھڑے کئے ہےں جن سے ہر قاری ابتداً ےہ نتےجہ اخذ کرنے پر مجبور ہوگا کہ مصنف نے مدارس اسلامےہ کے تعلےمی نظام پر رےسرچ کا جوکھم اٹھا ےا ہے اور خامےوں اور خوبےوں پر اےماندارانہ طرےقہ سے روشنی ڈالنے کی کما حقہ کوشش کی ہے لےکن کتاب کے آخر تک پہنچتے ہوئے اسلام اور مدارس اسلامےہ کو نشانہ بنانے مےں کو ئی کمی باقی نہےں چھوڑی گئی ہے۔ حتی کہ مدارس پر غےر فطری جنسی عمل کو فروع دےنے ، دہشت گردوں کی اعانت کرنے اور ناجائز طرےقہ سے دولت اکٹھا کرنے کے سنگےن الزامات تک عائد کئے گئے ہےں جن سے مذہبی جذبات کا مجروح ہونا فطری ہے ۔اسے مصنف کتاب کی شاطرانہ فکر کہئے ےا کوئی دوسرا خوبصورت نام دے دےجئے کہ انہوں نے اپنے قلم کی ساحری بکھےرتے ہوئے ہندوستان مےں مدارس کی عظمت رفتہ کا ابتدا مےں بڑے ہی اےمانداری سے اعتراف کےا ہے بعد ازاں انہوں نے بعض سنجےدہ نوعےت کے سوالات کھڑے کئے ہےں ۔مثلا ًوہ درےافت کرتے ہےں کہ’ تقرےباً صدی بھر ہند کے تاج پر راج کرنے والا مسلم فرقہ پچھڑتا کےوں چلا گےا؟‘آگے وہ سوال کرتے ہےں کہ ان کی مالی، اقتصادی، تعلےمی اور معاشرتی ترقی کےوں نہےں ہو سکی؟ وہ ےہ بھی پوچھتے ہےں کہ کون ہے ذمہ دار اس عظےم قوم کے حالات کا؟ کس کے منافع کی بھےنٹ چڑھ گےا مسلم فرقہ کا بہبود؟ مسٹر نوےن کمار دعویٰ کرتے ہےں کہ انہےں سوالوں کا جواب تلاش کرتی ہے ےہ کتاب اور پردہ فاش کرتی ہے ان لوگوں کا جو اس قوم کی بے حالی اور بدحالی کے لئے ذمہ دار ہےں ۔لےکن سوالوں کے جواب کی تلاش کا عمل انجام دےتے ہوئے موصوف مدارس کو’جملہ غلاظتوں کا مجموعہ‘قرار دے گئے ہےں۔کبھی’ زی نےوز‘ کے ذرےعہ سنسنی خےزی پھےلانے والے نوےن کمار نے کتاب کو گےارہ ابواب مےں تقسےم کےا ہے جس کے علاحدہ علاحدہ عنوان قائم کئے ہےں۔ انہوں نے شروعات کےلئے ’اسلام مےں تعلےم کا عنوان‘ قائم کےا ہے۔ اس کے بعد’ اسلامک مدرسوں کی شروعات‘ ’تحریک آزادی مےں علماءکا کردار‘ جےسی سرخےوں کے تحت مدارس اسلامےہ کے کردار کو تسلےم کےا ہے۔ بعد ازاں ”مدرسوں کی سےاست“ سے اپنی مرےضانہ ذہنےت کے اظہار کی شروعات کی ہے اور ”اسلامی مدرسوں کا کھوکھلا نظام“ ”مدرسہ اور شدت پسندی“ ”اسلامی مدرسے اور دہشت گردی“ ”اسلامی مدرسوں کے نصاب“ اور ”مسلمان لڑکےوں کی تعلےم“ جےسے عناوےن کے تحت ہندوستانی مدارس کو قوم مسلم کےلئے جملہ خرافات اور مغلظات کی کلےد بناکر پےش کردےا ہے۔ کتاب کے دسوےں باب کا عنوان ہے:”جدےد تعلےم واحد ایک حل“۔ اس عنوان کے تحت مصنف نے جنوبی ہند کے مسلمانوں کی ہمہ گےر ترقی کا ذکر کرتے ہوئے شمالی ہند کے مسلمانوں کی بدحالی کےلئے ملی قےادت اور مدارس کو ذمہ دار قرار دےا ہے، مذہب پسندی کے رجحان پر شدےد تنقےد کی ہے اور مرےضانہ ذہنےت کا نقطہ¿ انجام وہاں دےکھنے کو ملتا ہے جہاں مصنف مسلمانوں کے مذہبی عقےدے کو بھی نہےں بخشتا اور اسے بھی اپنے عقل کی کسوٹی پر تولتے ہوئے ”خدا کی وحدانےت“ کے تصور کا مذاق اڑانے لگ جاتا ہے۔اےسے وقت مےں جبکہ ہندواحےاءپسند تنظےم آر اےس اےس بھی مسلمانوں سے راہ و رسم بڑھانے اورفرقہ وارانہ خےرسگالی کو فروغ دےنے کی بات کرے، کتاب مذکور مےں مذہبی جذبات سے بحث و تمحےص کے دوران ”خدا کی وحدانےت“ کے تصور کا مذاق اڑاےا جانا ےقےنا ایک نئے فتنے کو جنم دےنے کا محرک بن سکتا ہے۔لےکن اسے کےا کہئے کہ مصنف نے اظہار رائے کی آزادی کا نادرست استعمال کرتے ہوئے اےسے موضوعات پر بھی خامہ فرسائی کی ہے جس سے ملک کی گنگا جمنی تہذےب کا جنازہ نکلتا دکھائی دے رہا ہے۔”جدےد تعلےم واحد ایک حل“ کے عنوان کے تحت فاضل مصنف نے ایک جگہ ےہ لکھا ہے : ”مسلمانوں مےں جذباتی جارحیت اس وجہ سے بھی زےادہ ہے کےوں کہ وہ اسلام مےں دلےل کی گنجائش نہےں نکالتے۔ ان کا ےہ رٹارٹاےا محاورہ ہے کہ اسلام ہی آخری مذہب ہے، اللہ ایک ہے اور محمد(ﷺ) خدا کے پےغمبر ہےں۔(حضرت محمد کا ذکر کرتے ہوئے ﷺنہےں لکھا گےا ہے) اور قرآن خدا کی آخری کتاب ہے۔ اس بنےادی عقےدے پر کوئی تنقےد نہےں کرسکتا۔ دراصل ہر مسلمان کو اےام طفولےت مےں ہی ان خےالات کا گھول اس طرح پلادےا جاتا ہے کہ وہ اس سے الگ ہٹ کر سوچ بھی نہےں سکتا.... ہم ان محاوروںکو رٹنے کی بجائے اس سے آگے نکل کر سوچنے کی ہمت کرتے ہےں۔“مدراس اسلامےہ کے ذمہ داروں کو ”لٹےرا“ اور اردو کے خدمت گاروں کو ”فقےر“ قرار دےنے والی اس کتاب کے مصنف کو علی گڑھ مسلم ےونےورسٹی بھی ایک آنکھ نہےں بھارہی ہے۔ وہ جدےد تعلےم سے مدارس کے نصاب کو آراستہ کرنے کی وکالت تو کرتے ہےں لےکن دوسرے ہی لمحے علی گڑھ مسلم ےونےورسٹی کے ہاسٹلوں مےں قائم مساجد انہےں اس بات کے لئے مجبور کرتی ہےں کہ وہ انہےں اپنی جنبش تحریر کا حصہ بناڈالےں۔ چنانچہ وہ ذہنی فسطائےت کا شکار بنتے ہوئے رقمطراز ہےں: ”سوال اس بات کا بھی ہے کہ ملک کے اقلےتی اسکولوں ےا دانش گاہو ںمےں مرضی کے مطابق نتائج کےوں نہےں نکل پارہے ہےں۔ مثال کے طورپر علی گڑھ مسلم ےونےورسٹی کو ہی لےا جاسکتا ہے۔ اس کا پورا خرچ حکومت ہند برداشت کرتی ہے۔ وہاں کا ماحول بھی ملا نما نہےں ہے۔ پھر بھی وہاں کے طلباءاعلیٰ سطحی کمپٹےشن مےں کامےاب نہےں ہوپاتے۔ اس مےں حکومت کو تو ذمہ دار نہےں ٹھہراےا جاسکتا۔ اےسا شاےد وہاں کے اسلامی ماحول کو لے کر ہے۔ علی گڑھ مسلم ےونےورسٹی کے ہر ایک ہاسٹل مےں مسجد ہے۔ اس کے امام کو سرکاری خزانہ سے تنخواہ دی جاتی ہے۔ ےونےورسٹی احاطہ مےں مذہب اسلام کی تبلےغ کے لئے تبلےغی جماعت سرگرم ہے اور جماعت اسلامی کی طلباءتنظےم تو کافی بڑھ چڑھ کر حصہ لےتی ہے۔“ایک جانب مدارس اسلامےہ کے موجودہ نظام کو فرسودہ، بےہودہ اور قومی سلامتی کے لئے ضرر رساں بناکر پےش کرنا اور دوسری جانب علی گڑھ جےسے گہوارہ¿ علمی کے ماحول پر بھی اعتراض جتانا اور پھر مدارس اسلامےہ کو جدےد طرز پر ڈھالنے کی وکالت بھی کرنا کےا اخلاص پسندانہ تحقیق پر مبنی قدم ہے؟ ےہ سوال ”اسلامی مدارس....بے نقاب“ کے مصنف کے ذہنی تضادات کو ہی سامنے نہےں لاتا بلکہ مبصرےن کہتے ہےں کہ اس کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد فرقہ وارانہ منافرت پھےلنے کا بھی شدےد خطرہ لاحق ہے کےوں کہ کتاب کے بعض نکات مذہب اسلام پر براہ راست حملہ تصور کئے جاسکتے ہےں۔

Tuesday, January 1, 2008

BENAZEER DEATH,C.I.A & The Mossad

بے نظیر کے قتل میں موساد اور سی آئی اے ملوث؟
شاہدالاسلام

سابق وزیر اعظم پاکستان محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد اورامریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے شریک ہے؟ اب اس نظریہ سے بھی بے نظیر کے قتل کے واقعہ کو دیکھا جارہا ہے۔ حالانکہ اس امر پر دنیایقین نہیں کرتی کہ واقعتاً قتل کا منصوبہ سی آئی اے نے تیار کیا اور موساد نے اسے روبہ عمل لایا، لیکن پاکستانی ارباب اقتدار نے جس نہج پر بے نظیر کے قتل کو معمہ بنایا اور سانحہ کی گتھی جس طرح الجھائی گئی اس کے سِروں کوتلاش کرنے کے بعد بادی النظر میں بہرحال یہ گمان ضرورگزرتا ہے کہ بے نظیراسرائیل اور امریکہ سے تعلق رکھنے والی خفیہ ایجنسیوں کا شکار بنیں اور پاکستانی حکومت اس سچ کو چھپانے کے لیے مستقل سازشوں میں مصروف ہے تاکہ اصل حقائق کا ادراک نہ ہوپائے۔ بہرحال بے نظیر کا قتل جس نے بھی کیا اس نے سوالات کی ایک طویل فہرست ضرور چھوڑ دی جس کے جوابات میں ہی پوری کہانی چھپی ہے۔سوال یہ ہے کہ پاکستانی الیکٹرونک میڈیا نے جس کلین شیو حملہ آور کو بے نظیر پرگولیاں چلاتے ہوئے تصویروں میں دکھایا ہے آخر وہ ہے کون؟آخراس نامعلوم حملہ آور کو بہ آسانی بے نظیر کی کارتک پہنچنے کیسے دیا گیا؟ جب کہ قبل سے ہی یہ پیش قیاسی کی جاچکی تھی کہ بے نظیرخودکش حملوں کا شکار ہوسکتی ہیں پھر ایسی صورت میں ایک نیاکلین شیو چہرہ نمودار ہوجائے اور وہ بغیر کسی روک ٹوک کے بے نظیر کی کار تک پہنچ جائے اور اپنے منصوبے کو عملی شکل دے دے تو اس سلسلے میںبہ آسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ اسے سیکورٹی دستوں کی جانب سے یقینا گرین سگنل ملا ہوا تھا۔سوال یہ ہے کہ ایک بیرونی حملہ آور بے نظیر کو ’ٹارگیٹ‘ کرتا ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر عہدیداران کو اس سلسلے میں شبہ کیوں کر نہیں ہوتا؟کیا موساد یا سی آئی اے نے سازش کا جال بنتے ہوئے بے نظیر کے رفقائے کار میں سے چند سینئر رہنماﺅں کو بھی زرخرید غلام بنا رکھا تھاجوبے نظیر کے سانحہ کو معمہ بنانے میں لگے ہیں؟’قتل گاہ‘ جلسہ گاہ سے باہر ہے، اس میں کسی طرح کا کوئی تنازعہ نہیں ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قافلے کی صورت میں جب بے نظیرکی کار لوٹ رہی تھی تو گاڑی رکی کیسے؟کسی نے اشارہ کیا یا شیدائیوں کی بھیڑ کو دیکھ کربے نظیر خود ہی گاڑی رکوانے پر مجبورہوئیں؟ وہ لوگ کون تھے ؟ جنہوں نے گاڑی رکوائی یا جن کے لیے بے نظیر نے خود ہی گاڑی رکوادی؟یقینایوں ہی گاڑی رکی نہیں ہوگی اور بے نظیر گاڑی کی سن روف سے یوں ہی سرباہر نکالنے پر مجبور نہیں ہوئی ہوں گی۔ ایک بڑا سوال یہ بھی تحقیق طلب ہے کہ بے نظیر کی لاش کا پوسٹ مارٹم کیوں نہیں کیا گیا؟پیپلز پارٹی کے کس لیڈر نے اس سلسلے میں حکومت پاکستان سے گزارش کی؟یا پھر حکومت نے خود ہی یہ فیصلہ لیا؟پوسٹ مارٹم حادثاتی موت کے اسباب کا تعین کرنے کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہوا کرتا ہے، یہ سبھی کو معلوم ہے باوجود اس کے پوسٹ مارٹم نہیں کیا جانا کیا کسی بڑی عالم گیر سازش کا اشارہ نہیں ہے؟سوال یہ ہے کہ جب لاش کا پوسٹ مارٹم کیا ہی نہیں گیا تو موت کے اسباب کیسے تلاشے جائیں گے؟ موت کے سبب کا تعین کیوں کرہوگا اور اگر معاملہ عدالتی چارہ جوئی کا مستحق بنا تو پھر بے نظیر کی ہلاکت کے حوالے سے حکومت اپنے موقف کو کیسے واضح کرے گی؟ ایک سابق وزیر اعظم کے قتل کے بعدپوسٹ مارٹم نہ کیے جانے کا فیصلہ لینے والا فرد آخر ہے کون؟ جس نے بنیادی کلیے کوتوڑا اورہمیشہ ہمیش کے لیے اصل سچائی کو بے نظیر کی لاش کے ساتھ ہی قبرمیں دفن کرادیا؟ایک اور سوال جواب طلب ہے کہ حکومت پاکستان نے محترمہ بھٹو کی موت کے تعلق سے بار بار متضاد بیانات کیوں جاری کیے؟کبھی یہ کہنا کہ موت گولی لگنے سے ہوئی اور کبھی اس امرپر زور دینا کہ بم کے ذرات نے بے نظیر کی جان لی، حکومت اس سے کیا ثابت کرنا چاہتی ہے؟سوال یہ بھی ہے کہ موقعہ¿ واردات پرفارنسک ٹیم کے پہنچنے سے قبل ہی صفائی کیوں کی گئی؟ خون کے دھبوں اوربارود کے ذرات کودھونے کا مقصد ثبوت وشواہد کو مٹانا کیوں نہ مانا جائے؟ثبوت کو ضائع کرنے کا اہم حکم حکومت کے کس اہلکار نے دیا؟ بے نظیر کی گاڑی میں کون کون لیڈر سوار تھے؟ مخدوم امین فہیم اور شیریں رحمان کے ساتھ اور کون لوگ اس گاڑی میں موجود تھے؟ انہوں نے کیا دیکھا؟ انہوںنے گولی چلنے کی آوازسنی یا نہیں؟شیریں رحمان نے میت کو غسل کرایا۔ ان کا بیان ہے کہ گردن پر گولیوں کے نشان موجود تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ جو دیگرلوگ بے نظیر کے ساتھ اس گاڑی میں موجود تھے انہیں بے نظیر کو گولی لگنے کا پتہ کیسے نہیں چلا؟ایک سابق وزیر اعظم کا آخری سفر ہے۔ایک ایسے وزیر اعظم کی میت دفن کی جانی ہے جس نے اپنی حکمرانی کے ذریعہ تاریخ عالم میں سنہرے باب کا اضافہ کیا۔کیا یہ سوال معنی خیز نہیں ہے کہ اس کے جنازے میں عالمی رہنماﺅں کی شرکت کیوں نہیں ہوتی ہے؟کفن دفن میں بھی عجلت سے کیوں کام لیا جاتا ہے؟لاش کا آخری دیدار کیوں نہیں کرایا جاتا ہے؟مداحوں کو اپنے محبو ب رہنما کا چہرہ دیکھنے سے کیوں روکا جاتا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو اس حقیقت کو شاید ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ بے نظیر کی شہادت کا سانحہ اس عالمی دہشت گردی کا نتیجہ ہے جس کا سرخیل امریکہ اوراسرائیل ہی ہے کوئی اور نہیں؟ وہ کیسے....بے نظیر کے قتل سے متعلق سوالات کی بوچھار کے درمیان شاید اس حقیقت کوبھی نظراندازنہیںکیاجاسکتا کہ حکومت پاکستان نے جس مواصلاتی مکالمے کو بنیادبناکرشدت پسنداسلامی عناصرکوموردالزام ٹھہرانے کی کوشش کی ہے ، وہ تکنیکی اعتبار سے معتبریت سے عاری ہے۔ اولاً یہ کہ اب تک کی سائنسی دریافت کے مطابق آڈیو کیسٹ ٹیپ کیے جانے کے اوقات کا تعین ناممکن ہے لہٰذا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جس مکالمہ کوپاکستانی ارباب اقتدار نے بنیاد بناکر بے نظیر کے قاتل کی حیثیت سے القاعدہ کو اس واقعہ میںملوث کرنے کی کوشش کی ہے وہ درست ہے۔دوسری جو قابل گرفت بات ہے وہ یہ کہ پورے مکالمہ سے کہیں یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ مبارکباد دینے کا تعلق بے نظیر کے سانحہ سے ہو کیونکہ بیت اللہ محسود اور مولوی صاحب کے درمیان ہونے والی گفتگو کا طرز تکلم دور دور تک ایسا کوئی اشارہ نہیں دے رہا ہے جسے بنیاد بنا کر حکومت پاکستان اپنے دلائل کودرست گردان سکے۔ علاوہ ازیںپیپلز پارٹی کے ترجمان فرحت اللہ بابر کے اس بیان کوکیوں کر نظر انداز کیا جائے کہ بیت اللہ محسود نے دو قابل اعتماد ذرائع سے محترمہ بے نظیر بھٹو کو یہ پیغام بھیجا ہوا تھا کہ ان سے ہماری کوئی دشمنی نہیں ہے اور یہ کہ 18اکتوبر کے خود کش حملے میں ان کے لوگ ملوث نہیں ہیں۔ان دوبنیادی سوالوں سے قطع نظر اگر کچھ دیر کے لیے یہ بات مان بھی لی جائے کہ پاکستانی انٹلی جنس نے بے نظیر کے قتل کے فوراً بعد یہ پیغام ریکارڈ کیا تو یہ سوال بہرحال قابل گرفت ہے یا نہیںکہ شدت پسند عناصرکی ’قاتل شبیہ‘ سامنے آجانے کے باوجود بھی انہیںآزاد چھوڑ دیاگیا اورفی الفورتادیبی کارروائی کرتے ہوئے بیت اللہ محسود کے ٹھکانے پرشب خون مارنے کی جرا¿ت نہیں دکھائی گئی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب محسود نے مولوی صاحب سے ٹیلی فونک گفتگو کے دوران یہ بتادیاکہ وہ کہاں قیام پذیر ہے تو پھر حکومت کی جانب سے اس کے خلاف بلا تاخیر فوجی آپریشن نہ چلانے کا جواز کیا ہے؟اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کھوکھلے دلائل کی بنیاد پر گڑھے جانے والے ’فسانے‘ کو’حقیقت ‘ما ن لیا جائے یااس سچائی کوتسلیم کیا جائے جو بادی النظر میں سابق وزیر اعظم پاکستان کے قتل سے متعلق ہیں۔دنیا کا ذی شعور طبقہ بہرحال گڑھی گئی کہانیوں پر اس وجہ سے یقین نہیں کرسکتا کیونکہ اس کے برعکس بے نظیر کی موت کے وہ ہولناک مناظر سامنے ہیں جن میںثبوتوںکومٹانے، شواہد سے چھیڑچھاڑکرنے،قتل کے طریقہ¿ کار کے تعین میںتضاد سے کام لینے اور سفید جھوٹ کوحقیقی سچائی بنا کر پیش کرنے کی کوشش صاف صاف دکھائی دیتی ہے۔جہاں تک عالمی دہشت گردی کے سرخیل امریکہ اور اسرائیل کا تعلق ہے تواس سلسلے میں حقائق کے ادراک کےلئے ضرورت اس امرکی ہے کہ پاکستان میں حالیہ دنوں میں صیہونیت کے بڑھتے دائرہ¿ کار کا جائزہ لیا جائے اور یہ دیکھنے کی کوشش ہوکہ پاکستانی ارباب اقتدار کس حد تک امریکہ اوراسرائیل کی گود میں بیٹھ کرداخلی وخارجی معاملات طے کرتے رہے ہیں۔یقینی اعتبار سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جب مملکت خدا داد میں صیہونی عناصر کے بڑھتے اثر و نفوذ کی حقیقت دنیاکے سامنے آجائے گی تو پھراس سچائی سے شاید انکار کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جائے گی کہ بی بی بے نظیرسی آئی اے اور موسادکی بھینٹ چڑھائی گئیں مگراس کے لیے یہ ضروری ہے کہ پاکستان میںصیہونی عناصر کے بڑھتے دائرہ¿ کار کو پہلے زیر موضوع لایا جائے اور یہ دیکھنے کی ایماندارانہ کوشش ہوکہ کیسے کیسے ملت فروش اسرائیل اور امریکہ کی گود میں بیٹھ کر مملکت خدا دادکو کھوکھلا بنانے کی سازشوں میں سرگرم ہیں۔ نہ صرف یہ کہ پاکستانی ارباب اقتدار کا ایک طبقہ ہی اسرائیل کی گود میں بیٹھ کراسلام مخالف فیصلے لے رہا ہے بلکہ مسلم لیگ نون او ر قاف سے لے کر خود بے نظیر کی پارٹی پاکستا ن پیپلزپارٹی کے بعض چوٹی کے سیاست داں تک اسرائیل نوازی کا ثبوت دینے میں لگے ہےں لہٰذا ایسے حالات کے درمیان جو لوگ بے نظیر کے قتل کوسی آئی اے اورموساد کی سازش کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں ا ن کے دلائل کو جھٹلانا شاید ناممکن ہوگا۔اس موقف کی تائید پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سرگرم شدت پسند عناصر کے اس خیال سے بھی ہوتی ہے جس میں شدت پسندوں نے بے نظیر کے قتل کی آزادانہ تفتیش کا مطالبہ کر تے ہوئے برطانیہ اور امریکہ کے تفتیش کاروں سے یہ کام نہ لینے اور عالمی تفتیش کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔اس سلسلے کا سب سے بڑا سوال جو گلے کے نیچے نہیں اترپارہا ہے وہ یہ ہے کہ سی آئی اے یا موساد نے سابق وزیر اعظم پاکستان کو کیوں ٹارگیٹ کیا؟اس کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟اس سوال کا اطمینان بخش جواب بھی درحقیقت ان تمام عوامل پرروشنی ڈال لینے کے بعد از خود سامنے آجائے گا کہ آخر وہ کون سی وجہ ہوسکتی ہے جس کی وجہ سے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موسادا ور امریکی خفیہ ادارہ سی آئی اے نے سابق وزیر اعظم پاکستان کواپنی خوراک بنایا۔بیشک ہم یقین کے ساتھ کچھ بھی کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں لیکن جو صورت حال ہمارے سامنے ہے اور بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد جوتغیروتبدل ہمیں دیکھنے کو مل رہا ہے اس کی بنیاد پر سچائی کی تلاش میں بہرحال سہرا نوردی تو ضروری ہے لہٰذا ہم یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ اس نظریہ سے قتل کے اس واقعہ کو دیکھنے اور پرکھنے کے بعد ہمیں کیا کچھ ملتا ہے۔بے نظیربھٹو کے قتل میں جہاںایک طرف اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد اور امریکی خفیہ ادارہ سی آئی اے کے ملوث ہونے کے اندیشے ظاہرکئے جارہے تھے وہیں دوسری جانب ایک اعلیٰ ترین پیش رفت کے تحت اسرائیل نے بے نظیربھٹوکو اپنا دوست اور پراعتمادساتھی قرار دینے کی کوشش کے ذریعہ دال میں کہیںنہ کہیں سیاہی ہونے کااشارہ خود ہی دے دیاہے۔ ایک اسرائیلی خبر رساں ادارے نے پاکستان کی مقتول سیاستداں بے نظیربھٹوکے تعلق سے یہ خبر منکشف کی ہے کہ محترمہ بھٹواسرائیل سے بہترتعلق قائم کرنے کی خواہاںتھیں۔ یہی نہیں بلکہ انہوںنے اپنے تحفظ کےلئے امریکی خفیہ ایجنسی موساد سے تعاون بھی مانگاتھا۔اسرائیلی میڈیانے اس بات کاانکشاف کرتے ہوئے کہاہے کہ بے نظیربھٹواسرائیلی ارباب اقتدارسے راست طورپر رابطے میں تھیں اور جب وہ ایک طویل جلاوطنی کے بعد وطن لوٹ رہی تھیں توانہوںنے اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرٹ کو خیرسگالی کاپیغام بھی بھیجاتھا۔ایک اسرائیلی روزنامہ نے اپنی رپورٹ میں لکھاہے کہ بے نظیرنے دوران انتخاب اپنے تحفظ کےلئے سی آئی اے اور اسکالینڈیارڈ کے ساتھ ہی ساتھ اسرائیلی خفیہ موساد سے بھی درخواست کی تھی کہ وہ اسے تحفظ فراہم کرے۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزارت خارجہ بے نظیرکو موساد کی تحویل میں دیناچاہتی تھی۔لیکن اسرائیلی حکومت نے مشرف کی ناراضگی مول لینے کاحوصلہ نہیں جٹایااورنتیجے کے طورپر بے نظیر کو موساد کی طرف سے تحفظ نہیں دیاگیا۔ نہ صرف یہ کہ اسرائیلی معاصر روزنامہ نے بے نظیرکے ذریعہ موساد سے تحفظ طلب کئے جانے کاذکر کیاہے بلکہ اخبار نے بے نظیرکی ہلاکت پر اسرائیلی لیڈرشپ کااظہارتا¿سف بیان کرنے کے بعد اس اعتماد کااظہارکرنے کی بھی کوشش کی ہے کہ اگر بے نظیربقید حیات ہوتیں تووہ پاکستان اوراسرائیل کے رشتوںکے درمیان ایک پل کاکام کرتیں۔اسرائیلی میڈیاکے اس انکشاف کے بعد کہ بے نظیر بھٹوموساد سے تحفظ کی طلب گار تھیں، ذرائع ابلاغ کی اس خبرکو کہ سی آئی اے اورموساد نے ہی بے نظیرکاقصہ تمام کیا،کی بادی النظر میں نفی توہوتی ہے لیکن تجزیہ کار اسے حقیقت کی پردہ پوشی کی کوشش گردان رہے ہیں۔وہ طبقہ جو بے نظیرکی موت کے لئے سی آئی اے اورموساد کو کل تک مورد الزام ٹھہرارہاتھا اس کایہ کہنا ہے کہ اسرائیلی میڈیانے صرف اورصرف حقیقت کی پردہ پوشی کے ارادے کے تحت یہ خبر منظرعام پر لائی ہے کہ بے نظیرنے پاکستان لوٹنے سے قبل اسرائیل سے تحفظات طلب کئے تھے۔سوال یہ پیداہوتاہے کہ اگر واقعتا بے نظیربھٹواسرائیل سے براہ راست رابطہ میں تھیں اورانہوںنے وطن لوٹتے ہوئے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد سے تحفظ طلب کیاتھاتویہ خبر ایک طویل مدت تک کس مصلحت کے تحت پردہ¿ خفا میں رکھی گئی تھی اور جب احوال واقعی کے تناظر میں تجزیہ کاروںنے بے نظیرکے قتل میں موساد اور سی آئی اے کے ملوث ہونے کااندیشہ ظاہر کرنا شروع کیاتواچانک یہ خبر اڑادی گئی کہ بے نظیرتوخود ہی اسرائیل سے خوشگوار تعلقات کی خواہاں تھیں اورحد تویہ ہے کہ انہوںنے اپنی زندگی کو درپیش خطرات سے نپٹنے کے لئے جس ادارے کو قابل اعتماد گرداناوہ موساد ہی تھا۔دومتضادنوعیت کی رپورٹوںکو سامنے رکھنے کے بعد کوئی بھی سنجیدہ اورمتین شخص ذہنی انتشاراورخلفشارمیںیقینی طورپر مبتلاہوگاکیوںکہ ایک رپورٹ کہتی ہے کہ بے نظیر کاقتل سی آئی اے اورموساد نے کروایاجبکہ دوسری خبر میںیہ انکشاف کیاجاتاہے کہ بے نظیرنے دہشت گردوںکے ممکنہ حملوںسے بچنے کے لئے موساد سے تعاون مانگاتھا۔ان دونوںخبروںکا بین السطور پڑھنے والاایک طبقہ یہ نتیجہ اخذکررہاہے کہ چونکہ بے نظیربھٹوکو عالمی دہشت گردی کاخوراک بنایاگیااوراسرائیلی وامریکی خفیہ اداروںنے منظم سازش کے تحت راستے سے ہٹایاگیااور ابھی شک کی سوئی کہیں نہ کہیں سے ا ن ایجنسیوںکی جانب پہنچنے لگ گئی ہے لہٰذاخودکو اس سلسلہ میں صاف و شفاف دکھلانے کے ارادے سے بے نظیر کی اسرائیل نوازی کو پرموٹ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس طبقہ کاماننا ہے کہ بلاشبہ محترمہ بے نظیربھٹوایک آزاد خیال مسلم خاتون تھیں جن کے اہل مغرب سے گہرے مراسم تھے لیکن وہ جنرل پرویز مشرف کی طرح ”ضمیرفروش “نہیں تھیں۔انہوںنے امریکہ اوراہل مغرب سے خوشگوارتعلقات ضرور قائم کئے ہوئے تھے اورجلاوطنی کے دنوںمیں برطانیہ ان کاٹھکانہ بھی ہواکرتاتھا۔لیکن کسی ایک موقعہ پر بھی بے نظیربھٹونے ملت فروشی کو راہ دینے کی کوشش نہیںکی تھی۔یہ استدلال پیش کرنے والاطبقہ پاکستان میں برسرپیکارشدت پسندبیت اللہ محسود کے اس بیان کو پیش کرنا نہیں بھولتاجس میں بقول پیپلزپارٹی رہنمامحسود نے دواہم مواقع پر بے نظیربھٹوکو یہ پیغام بھیجاہواتھاکہ شدت پسندان پر حملہ نہیں کریںگے۔اسرائیل کے انکشاف کے بعد فوری طورپرقتل کی یہ گتھی بظاہر الجھتی دکھائی دے رہی ہے لیکن شاید پاکستان میں صیہونیت کے بڑھتے اثر ونفوذکاجائزہ لینے کے بعدوہ حقیقت منظرعام پر آجائے گی کہ بے نظیرکو موساد اورسی آئی اے نے اپنا نشانہ بنایایانہیں؟اوراگر بنایاتوکیوں؟
................................باقی آئندہ

Monday, December 31, 2007

benazeer ki rooh ka shikwah

شاہدالاسلام
دختر مشرق بے نظیر بھٹوکوپیوند خاک کیے جانے کے ساتھ ہی پاکستانی سیاست کی تاریخ کا ایک باب مکمل ہوگیا۔ایک ایسا باب جسے ’بے نظیر باب‘ ہی کہا جائے گا کیونکہ مملکت خداداد پردو بارحکمرانی کاشرف کرنے والی بے نظیر بھٹو نے جمہوریت کی جڑوں کو مستحکم کرنے کے لیے جو عظیم قربانیاں دیں اس کی کوئی نظیر پاکستانی سیاست میں تلاش کرنے سے بھی نہیں مل سکتی۔بے نظیربھٹو کے قتل کے بعد پاکستانی سیاست کا اونٹ اب کس کروٹ بیٹھے گا، اس سلسلے میں سوائے اس کے کہ قیاس کے گھوڑے دوڑائے جائیں،یقین کے ساتھ کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ ملک میں جس طرح خانہ جنگی کے حالات پیدا ہوگئے ہیں اس سے جنوبی ایشیا میں تشویش کی لہر کا دوڑنا عین فطرت ہے۔ خصوصی طورپر ایک پڑوسی کی حیثیت سے ہندوستان کے لیے یہ امرانتہائی قابل تشویش ہے کہ پاکستان میں سیاسی بحران نقطہ¿ عروج پر جا پہنچا ہے اور بظاہر حالات کے معمول پر لوٹ آنے کا کوئی گمان نہیں گزرتا۔بے نظیر بھٹونے اپنی زندگی کو وطن کے لیے قربان کرتے ہوئے پاکستانی سیاست کے لیے ایثار وقربانی کی جو بہترین علامت پیش کی اوراپنی زندگی کو اسم بامسمیٰ بناتے ہوئے جو’بے نظیر نظیر‘ پیش کی اس سے پاکستانی سیاست کے شاہ سواروں کو سبق لینا چاہئے کہ ملک میں پائیدار حکمرانی کے خواب کوحقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے کس مجاہدے کی ضرورت ہے۔افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ اپنی محبوب لیڈر کو کھودینے کے باوجودبھی پاکستانی قوم ہوش کے ناخن نہیں لے رہی ہے اور انتشار و خلفشار کے ماحول کوگھٹانے کے بجائے مزید بڑھانے کو ہی ترجیح دی جارہی ہے جو پاکستان کی وحدت وسالمیت کے لیے بڑا خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان میں انارکی کے ماحول میں اضافے سے جنوبی ایشیا کوکن چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑرہاہے؟اوردہشت گردی کے ناسورکے مزید بڑھ جانے کے اندیشے کو کس طرح تقویت مل رہی ہے؟لیکن اس کے باوجود ستم ظریفی یہ ہے کہ دہشت گردی کے معاملے میںجنوبی ایشیائی ممالک کے سربراہان ذہنی اعتبار سے کچھ ایسے دیوالیہ پن کے شکار ہیں جس سے یہی نتیجہ اخذ کیاجاسکتا ہے کہ اس لعنت کے خاتمہ کا تصوربھی اب محال ہوچکا ہے۔پاکستان میںبے نظیر بھٹو کے قتل کے ساتھ ہی عالمی میڈیا میں دہشت گردی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا۔بالخصوص ہندوستانی میڈیا نے جس طریقے سے مریضانہ ذہنیت کا ثبوت دیتے ہوئے تمام تر صداقتوں کو پس پشت ڈال کرقتل کی اس واردات کو راست طریقہ سے القاعدہ یا طالبان سے جوڑنے کی حماقت دکھائی وہ شاید اسی سلسلے کی ایک مضبوط کڑی قرار پاسکتی ہے۔حالانکہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے ممکنہ قتل کے اندیشوں کو دیکھتے ہوئے خود پر ہونے والے کسی بھی حملہ کے لیے راست طور پرصدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کو ذمہ دار قرار دیا تھا اس کے ساتھ ہی ساتھ پاکستانی افواج کے بعض اہلکاروں پربھی حرف زنی کی تھی لیکن اس کو نظر انداز کرتے ہوئے اب دنیا بھر میں یہ شور بلند کیا جارہا ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں القاعدہ ملوث ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ القاعدہ کی جانب سے بھی مبینہ طور پراس سانحہ عظیم کی ذمہ داری قبول کیے جانے کی بات کہی جارہی ہے اور اس ’اقبال جرم‘کو پاکستانی ارباب حکمراں سے لے کرعالمی میڈیا تک متواترپروپیگنڈہ کے طور پراستعمال میں لارہاہے۔بے نظیر بھٹو کی شہادت کے پیچھے القاعدہ کا ہاتھ ہے یا نہیں، اس سلسلے میں یقین کے ساتھ ہرگز کچھ نہیں کہا جاسکتااور شاید یہ ایک ناقابل تردید سچائی ہے کہ بے نظیر بھٹو کے حقیقی قاتلوں کے چہرے شاید کبھی منظرعام پر نہیں لائے جاسکیں گے کیونکہ درحقیقت بساط سیاست سے بے نظیر بھٹو کے وجود کو مٹانے کی سرکاری کوشش کو ملمع کاری کے ذریعہ نئے روپ میں پیش کیا جارہا ہے۔آج کی تاریخ میںصدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کی جانب سے بے نظیر کے غم میں بہائے جانے والے آنسوﺅں کی کوئی حقیقت نہیں رہ جاتی کیونکہ بے نظیر بھٹو کا وہ ای میل پیغام منظر عام پر آچکا ہے جو تقریباً دو ماہ قبل انہوں نے امریکی صلاح کارمارک کو بھیجا تھا۔ اس ای میل پیغام میں محترمہ بھٹو نے طویل جلاوطنی کے بعد وطن لوٹتے ہوئے اپنی زندگی کو درپیش خطرات کا ذکر کیا تھا اوراپنے صلاح کار کو یہ مشورہ دیا تھا کہ اگر ان کا قتل کردیا جاتا ہے تو وہ اس پیغام کو جاری کردیں۔ بے نظیر بھٹو کے صلاح کار نے مرحومہ کے قتل کے بعدامریکی ٹیلی ویژن چینل سی این این کو وہ پیغام ارسال کردیالیکن عالمی میڈیا کی جانبداری تو دیکھئے کہ کہیں اس پیغام کا دور دور تک کوئی ذکر نہیں ہے او ر بے نظیر کے قتل کے لیے راست طورپر القاعدہ کو ملوث ٹھہرانے کی جی توڑ کوشش کی جارہی ہے۔ مارک سیگل نے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے بہرحال دنیا کے سامنے اس سچائی کو رکھ دیا کہ پاکستانی ارباب اقتداربے نظیر کے تعلق سے بقول مرحومہ کیا سلوک اختیارکرنا چاہتے تھے۔ اب اس حقیقت کے منظر عام پر آجانے کے بعد اگر بے نظیر کی روح عالمی میڈیا پر لعنت ملامت کرے تو اس میں بیجا بھی کیا ہے؟