Tuesday, January 1, 2008

BENAZEER DEATH,C.I.A & The Mossad

بے نظیر کے قتل میں موساد اور سی آئی اے ملوث؟
شاہدالاسلام

سابق وزیر اعظم پاکستان محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد اورامریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے شریک ہے؟ اب اس نظریہ سے بھی بے نظیر کے قتل کے واقعہ کو دیکھا جارہا ہے۔ حالانکہ اس امر پر دنیایقین نہیں کرتی کہ واقعتاً قتل کا منصوبہ سی آئی اے نے تیار کیا اور موساد نے اسے روبہ عمل لایا، لیکن پاکستانی ارباب اقتدار نے جس نہج پر بے نظیر کے قتل کو معمہ بنایا اور سانحہ کی گتھی جس طرح الجھائی گئی اس کے سِروں کوتلاش کرنے کے بعد بادی النظر میں بہرحال یہ گمان ضرورگزرتا ہے کہ بے نظیراسرائیل اور امریکہ سے تعلق رکھنے والی خفیہ ایجنسیوں کا شکار بنیں اور پاکستانی حکومت اس سچ کو چھپانے کے لیے مستقل سازشوں میں مصروف ہے تاکہ اصل حقائق کا ادراک نہ ہوپائے۔ بہرحال بے نظیر کا قتل جس نے بھی کیا اس نے سوالات کی ایک طویل فہرست ضرور چھوڑ دی جس کے جوابات میں ہی پوری کہانی چھپی ہے۔سوال یہ ہے کہ پاکستانی الیکٹرونک میڈیا نے جس کلین شیو حملہ آور کو بے نظیر پرگولیاں چلاتے ہوئے تصویروں میں دکھایا ہے آخر وہ ہے کون؟آخراس نامعلوم حملہ آور کو بہ آسانی بے نظیر کی کارتک پہنچنے کیسے دیا گیا؟ جب کہ قبل سے ہی یہ پیش قیاسی کی جاچکی تھی کہ بے نظیرخودکش حملوں کا شکار ہوسکتی ہیں پھر ایسی صورت میں ایک نیاکلین شیو چہرہ نمودار ہوجائے اور وہ بغیر کسی روک ٹوک کے بے نظیر کی کار تک پہنچ جائے اور اپنے منصوبے کو عملی شکل دے دے تو اس سلسلے میںبہ آسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ اسے سیکورٹی دستوں کی جانب سے یقینا گرین سگنل ملا ہوا تھا۔سوال یہ ہے کہ ایک بیرونی حملہ آور بے نظیر کو ’ٹارگیٹ‘ کرتا ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر عہدیداران کو اس سلسلے میں شبہ کیوں کر نہیں ہوتا؟کیا موساد یا سی آئی اے نے سازش کا جال بنتے ہوئے بے نظیر کے رفقائے کار میں سے چند سینئر رہنماﺅں کو بھی زرخرید غلام بنا رکھا تھاجوبے نظیر کے سانحہ کو معمہ بنانے میں لگے ہیں؟’قتل گاہ‘ جلسہ گاہ سے باہر ہے، اس میں کسی طرح کا کوئی تنازعہ نہیں ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قافلے کی صورت میں جب بے نظیرکی کار لوٹ رہی تھی تو گاڑی رکی کیسے؟کسی نے اشارہ کیا یا شیدائیوں کی بھیڑ کو دیکھ کربے نظیر خود ہی گاڑی رکوانے پر مجبورہوئیں؟ وہ لوگ کون تھے ؟ جنہوں نے گاڑی رکوائی یا جن کے لیے بے نظیر نے خود ہی گاڑی رکوادی؟یقینایوں ہی گاڑی رکی نہیں ہوگی اور بے نظیر گاڑی کی سن روف سے یوں ہی سرباہر نکالنے پر مجبور نہیں ہوئی ہوں گی۔ ایک بڑا سوال یہ بھی تحقیق طلب ہے کہ بے نظیر کی لاش کا پوسٹ مارٹم کیوں نہیں کیا گیا؟پیپلز پارٹی کے کس لیڈر نے اس سلسلے میں حکومت پاکستان سے گزارش کی؟یا پھر حکومت نے خود ہی یہ فیصلہ لیا؟پوسٹ مارٹم حادثاتی موت کے اسباب کا تعین کرنے کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہوا کرتا ہے، یہ سبھی کو معلوم ہے باوجود اس کے پوسٹ مارٹم نہیں کیا جانا کیا کسی بڑی عالم گیر سازش کا اشارہ نہیں ہے؟سوال یہ ہے کہ جب لاش کا پوسٹ مارٹم کیا ہی نہیں گیا تو موت کے اسباب کیسے تلاشے جائیں گے؟ موت کے سبب کا تعین کیوں کرہوگا اور اگر معاملہ عدالتی چارہ جوئی کا مستحق بنا تو پھر بے نظیر کی ہلاکت کے حوالے سے حکومت اپنے موقف کو کیسے واضح کرے گی؟ ایک سابق وزیر اعظم کے قتل کے بعدپوسٹ مارٹم نہ کیے جانے کا فیصلہ لینے والا فرد آخر ہے کون؟ جس نے بنیادی کلیے کوتوڑا اورہمیشہ ہمیش کے لیے اصل سچائی کو بے نظیر کی لاش کے ساتھ ہی قبرمیں دفن کرادیا؟ایک اور سوال جواب طلب ہے کہ حکومت پاکستان نے محترمہ بھٹو کی موت کے تعلق سے بار بار متضاد بیانات کیوں جاری کیے؟کبھی یہ کہنا کہ موت گولی لگنے سے ہوئی اور کبھی اس امرپر زور دینا کہ بم کے ذرات نے بے نظیر کی جان لی، حکومت اس سے کیا ثابت کرنا چاہتی ہے؟سوال یہ بھی ہے کہ موقعہ¿ واردات پرفارنسک ٹیم کے پہنچنے سے قبل ہی صفائی کیوں کی گئی؟ خون کے دھبوں اوربارود کے ذرات کودھونے کا مقصد ثبوت وشواہد کو مٹانا کیوں نہ مانا جائے؟ثبوت کو ضائع کرنے کا اہم حکم حکومت کے کس اہلکار نے دیا؟ بے نظیر کی گاڑی میں کون کون لیڈر سوار تھے؟ مخدوم امین فہیم اور شیریں رحمان کے ساتھ اور کون لوگ اس گاڑی میں موجود تھے؟ انہوں نے کیا دیکھا؟ انہوںنے گولی چلنے کی آوازسنی یا نہیں؟شیریں رحمان نے میت کو غسل کرایا۔ ان کا بیان ہے کہ گردن پر گولیوں کے نشان موجود تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ جو دیگرلوگ بے نظیر کے ساتھ اس گاڑی میں موجود تھے انہیں بے نظیر کو گولی لگنے کا پتہ کیسے نہیں چلا؟ایک سابق وزیر اعظم کا آخری سفر ہے۔ایک ایسے وزیر اعظم کی میت دفن کی جانی ہے جس نے اپنی حکمرانی کے ذریعہ تاریخ عالم میں سنہرے باب کا اضافہ کیا۔کیا یہ سوال معنی خیز نہیں ہے کہ اس کے جنازے میں عالمی رہنماﺅں کی شرکت کیوں نہیں ہوتی ہے؟کفن دفن میں بھی عجلت سے کیوں کام لیا جاتا ہے؟لاش کا آخری دیدار کیوں نہیں کرایا جاتا ہے؟مداحوں کو اپنے محبو ب رہنما کا چہرہ دیکھنے سے کیوں روکا جاتا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو اس حقیقت کو شاید ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ بے نظیر کی شہادت کا سانحہ اس عالمی دہشت گردی کا نتیجہ ہے جس کا سرخیل امریکہ اوراسرائیل ہی ہے کوئی اور نہیں؟ وہ کیسے....بے نظیر کے قتل سے متعلق سوالات کی بوچھار کے درمیان شاید اس حقیقت کوبھی نظراندازنہیںکیاجاسکتا کہ حکومت پاکستان نے جس مواصلاتی مکالمے کو بنیادبناکرشدت پسنداسلامی عناصرکوموردالزام ٹھہرانے کی کوشش کی ہے ، وہ تکنیکی اعتبار سے معتبریت سے عاری ہے۔ اولاً یہ کہ اب تک کی سائنسی دریافت کے مطابق آڈیو کیسٹ ٹیپ کیے جانے کے اوقات کا تعین ناممکن ہے لہٰذا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جس مکالمہ کوپاکستانی ارباب اقتدار نے بنیاد بناکر بے نظیر کے قاتل کی حیثیت سے القاعدہ کو اس واقعہ میںملوث کرنے کی کوشش کی ہے وہ درست ہے۔دوسری جو قابل گرفت بات ہے وہ یہ کہ پورے مکالمہ سے کہیں یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ مبارکباد دینے کا تعلق بے نظیر کے سانحہ سے ہو کیونکہ بیت اللہ محسود اور مولوی صاحب کے درمیان ہونے والی گفتگو کا طرز تکلم دور دور تک ایسا کوئی اشارہ نہیں دے رہا ہے جسے بنیاد بنا کر حکومت پاکستان اپنے دلائل کودرست گردان سکے۔ علاوہ ازیںپیپلز پارٹی کے ترجمان فرحت اللہ بابر کے اس بیان کوکیوں کر نظر انداز کیا جائے کہ بیت اللہ محسود نے دو قابل اعتماد ذرائع سے محترمہ بے نظیر بھٹو کو یہ پیغام بھیجا ہوا تھا کہ ان سے ہماری کوئی دشمنی نہیں ہے اور یہ کہ 18اکتوبر کے خود کش حملے میں ان کے لوگ ملوث نہیں ہیں۔ان دوبنیادی سوالوں سے قطع نظر اگر کچھ دیر کے لیے یہ بات مان بھی لی جائے کہ پاکستانی انٹلی جنس نے بے نظیر کے قتل کے فوراً بعد یہ پیغام ریکارڈ کیا تو یہ سوال بہرحال قابل گرفت ہے یا نہیںکہ شدت پسند عناصرکی ’قاتل شبیہ‘ سامنے آجانے کے باوجود بھی انہیںآزاد چھوڑ دیاگیا اورفی الفورتادیبی کارروائی کرتے ہوئے بیت اللہ محسود کے ٹھکانے پرشب خون مارنے کی جرا¿ت نہیں دکھائی گئی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب محسود نے مولوی صاحب سے ٹیلی فونک گفتگو کے دوران یہ بتادیاکہ وہ کہاں قیام پذیر ہے تو پھر حکومت کی جانب سے اس کے خلاف بلا تاخیر فوجی آپریشن نہ چلانے کا جواز کیا ہے؟اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کھوکھلے دلائل کی بنیاد پر گڑھے جانے والے ’فسانے‘ کو’حقیقت ‘ما ن لیا جائے یااس سچائی کوتسلیم کیا جائے جو بادی النظر میں سابق وزیر اعظم پاکستان کے قتل سے متعلق ہیں۔دنیا کا ذی شعور طبقہ بہرحال گڑھی گئی کہانیوں پر اس وجہ سے یقین نہیں کرسکتا کیونکہ اس کے برعکس بے نظیر کی موت کے وہ ہولناک مناظر سامنے ہیں جن میںثبوتوںکومٹانے، شواہد سے چھیڑچھاڑکرنے،قتل کے طریقہ¿ کار کے تعین میںتضاد سے کام لینے اور سفید جھوٹ کوحقیقی سچائی بنا کر پیش کرنے کی کوشش صاف صاف دکھائی دیتی ہے۔جہاں تک عالمی دہشت گردی کے سرخیل امریکہ اور اسرائیل کا تعلق ہے تواس سلسلے میں حقائق کے ادراک کےلئے ضرورت اس امرکی ہے کہ پاکستان میں حالیہ دنوں میں صیہونیت کے بڑھتے دائرہ¿ کار کا جائزہ لیا جائے اور یہ دیکھنے کی کوشش ہوکہ پاکستانی ارباب اقتدار کس حد تک امریکہ اوراسرائیل کی گود میں بیٹھ کرداخلی وخارجی معاملات طے کرتے رہے ہیں۔یقینی اعتبار سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جب مملکت خدا داد میں صیہونی عناصر کے بڑھتے اثر و نفوذ کی حقیقت دنیاکے سامنے آجائے گی تو پھراس سچائی سے شاید انکار کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جائے گی کہ بی بی بے نظیرسی آئی اے اور موسادکی بھینٹ چڑھائی گئیں مگراس کے لیے یہ ضروری ہے کہ پاکستان میںصیہونی عناصر کے بڑھتے دائرہ¿ کار کو پہلے زیر موضوع لایا جائے اور یہ دیکھنے کی ایماندارانہ کوشش ہوکہ کیسے کیسے ملت فروش اسرائیل اور امریکہ کی گود میں بیٹھ کر مملکت خدا دادکو کھوکھلا بنانے کی سازشوں میں سرگرم ہیں۔ نہ صرف یہ کہ پاکستانی ارباب اقتدار کا ایک طبقہ ہی اسرائیل کی گود میں بیٹھ کراسلام مخالف فیصلے لے رہا ہے بلکہ مسلم لیگ نون او ر قاف سے لے کر خود بے نظیر کی پارٹی پاکستا ن پیپلزپارٹی کے بعض چوٹی کے سیاست داں تک اسرائیل نوازی کا ثبوت دینے میں لگے ہےں لہٰذا ایسے حالات کے درمیان جو لوگ بے نظیر کے قتل کوسی آئی اے اورموساد کی سازش کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں ا ن کے دلائل کو جھٹلانا شاید ناممکن ہوگا۔اس موقف کی تائید پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سرگرم شدت پسند عناصر کے اس خیال سے بھی ہوتی ہے جس میں شدت پسندوں نے بے نظیر کے قتل کی آزادانہ تفتیش کا مطالبہ کر تے ہوئے برطانیہ اور امریکہ کے تفتیش کاروں سے یہ کام نہ لینے اور عالمی تفتیش کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔اس سلسلے کا سب سے بڑا سوال جو گلے کے نیچے نہیں اترپارہا ہے وہ یہ ہے کہ سی آئی اے یا موساد نے سابق وزیر اعظم پاکستان کو کیوں ٹارگیٹ کیا؟اس کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟اس سوال کا اطمینان بخش جواب بھی درحقیقت ان تمام عوامل پرروشنی ڈال لینے کے بعد از خود سامنے آجائے گا کہ آخر وہ کون سی وجہ ہوسکتی ہے جس کی وجہ سے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موسادا ور امریکی خفیہ ادارہ سی آئی اے نے سابق وزیر اعظم پاکستان کواپنی خوراک بنایا۔بیشک ہم یقین کے ساتھ کچھ بھی کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں لیکن جو صورت حال ہمارے سامنے ہے اور بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد جوتغیروتبدل ہمیں دیکھنے کو مل رہا ہے اس کی بنیاد پر سچائی کی تلاش میں بہرحال سہرا نوردی تو ضروری ہے لہٰذا ہم یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ اس نظریہ سے قتل کے اس واقعہ کو دیکھنے اور پرکھنے کے بعد ہمیں کیا کچھ ملتا ہے۔بے نظیربھٹو کے قتل میں جہاںایک طرف اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد اور امریکی خفیہ ادارہ سی آئی اے کے ملوث ہونے کے اندیشے ظاہرکئے جارہے تھے وہیں دوسری جانب ایک اعلیٰ ترین پیش رفت کے تحت اسرائیل نے بے نظیربھٹوکو اپنا دوست اور پراعتمادساتھی قرار دینے کی کوشش کے ذریعہ دال میں کہیںنہ کہیں سیاہی ہونے کااشارہ خود ہی دے دیاہے۔ ایک اسرائیلی خبر رساں ادارے نے پاکستان کی مقتول سیاستداں بے نظیربھٹوکے تعلق سے یہ خبر منکشف کی ہے کہ محترمہ بھٹواسرائیل سے بہترتعلق قائم کرنے کی خواہاںتھیں۔ یہی نہیں بلکہ انہوںنے اپنے تحفظ کےلئے امریکی خفیہ ایجنسی موساد سے تعاون بھی مانگاتھا۔اسرائیلی میڈیانے اس بات کاانکشاف کرتے ہوئے کہاہے کہ بے نظیربھٹواسرائیلی ارباب اقتدارسے راست طورپر رابطے میں تھیں اور جب وہ ایک طویل جلاوطنی کے بعد وطن لوٹ رہی تھیں توانہوںنے اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرٹ کو خیرسگالی کاپیغام بھی بھیجاتھا۔ایک اسرائیلی روزنامہ نے اپنی رپورٹ میں لکھاہے کہ بے نظیرنے دوران انتخاب اپنے تحفظ کےلئے سی آئی اے اور اسکالینڈیارڈ کے ساتھ ہی ساتھ اسرائیلی خفیہ موساد سے بھی درخواست کی تھی کہ وہ اسے تحفظ فراہم کرے۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزارت خارجہ بے نظیرکو موساد کی تحویل میں دیناچاہتی تھی۔لیکن اسرائیلی حکومت نے مشرف کی ناراضگی مول لینے کاحوصلہ نہیں جٹایااورنتیجے کے طورپر بے نظیر کو موساد کی طرف سے تحفظ نہیں دیاگیا۔ نہ صرف یہ کہ اسرائیلی معاصر روزنامہ نے بے نظیرکے ذریعہ موساد سے تحفظ طلب کئے جانے کاذکر کیاہے بلکہ اخبار نے بے نظیرکی ہلاکت پر اسرائیلی لیڈرشپ کااظہارتا¿سف بیان کرنے کے بعد اس اعتماد کااظہارکرنے کی بھی کوشش کی ہے کہ اگر بے نظیربقید حیات ہوتیں تووہ پاکستان اوراسرائیل کے رشتوںکے درمیان ایک پل کاکام کرتیں۔اسرائیلی میڈیاکے اس انکشاف کے بعد کہ بے نظیر بھٹوموساد سے تحفظ کی طلب گار تھیں، ذرائع ابلاغ کی اس خبرکو کہ سی آئی اے اورموساد نے ہی بے نظیرکاقصہ تمام کیا،کی بادی النظر میں نفی توہوتی ہے لیکن تجزیہ کار اسے حقیقت کی پردہ پوشی کی کوشش گردان رہے ہیں۔وہ طبقہ جو بے نظیرکی موت کے لئے سی آئی اے اورموساد کو کل تک مورد الزام ٹھہرارہاتھا اس کایہ کہنا ہے کہ اسرائیلی میڈیانے صرف اورصرف حقیقت کی پردہ پوشی کے ارادے کے تحت یہ خبر منظرعام پر لائی ہے کہ بے نظیرنے پاکستان لوٹنے سے قبل اسرائیل سے تحفظات طلب کئے تھے۔سوال یہ پیداہوتاہے کہ اگر واقعتا بے نظیربھٹواسرائیل سے براہ راست رابطہ میں تھیں اورانہوںنے وطن لوٹتے ہوئے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد سے تحفظ طلب کیاتھاتویہ خبر ایک طویل مدت تک کس مصلحت کے تحت پردہ¿ خفا میں رکھی گئی تھی اور جب احوال واقعی کے تناظر میں تجزیہ کاروںنے بے نظیرکے قتل میں موساد اور سی آئی اے کے ملوث ہونے کااندیشہ ظاہر کرنا شروع کیاتواچانک یہ خبر اڑادی گئی کہ بے نظیرتوخود ہی اسرائیل سے خوشگوار تعلقات کی خواہاں تھیں اورحد تویہ ہے کہ انہوںنے اپنی زندگی کو درپیش خطرات سے نپٹنے کے لئے جس ادارے کو قابل اعتماد گرداناوہ موساد ہی تھا۔دومتضادنوعیت کی رپورٹوںکو سامنے رکھنے کے بعد کوئی بھی سنجیدہ اورمتین شخص ذہنی انتشاراورخلفشارمیںیقینی طورپر مبتلاہوگاکیوںکہ ایک رپورٹ کہتی ہے کہ بے نظیر کاقتل سی آئی اے اورموساد نے کروایاجبکہ دوسری خبر میںیہ انکشاف کیاجاتاہے کہ بے نظیرنے دہشت گردوںکے ممکنہ حملوںسے بچنے کے لئے موساد سے تعاون مانگاتھا۔ان دونوںخبروںکا بین السطور پڑھنے والاایک طبقہ یہ نتیجہ اخذکررہاہے کہ چونکہ بے نظیربھٹوکو عالمی دہشت گردی کاخوراک بنایاگیااوراسرائیلی وامریکی خفیہ اداروںنے منظم سازش کے تحت راستے سے ہٹایاگیااور ابھی شک کی سوئی کہیں نہ کہیں سے ا ن ایجنسیوںکی جانب پہنچنے لگ گئی ہے لہٰذاخودکو اس سلسلہ میں صاف و شفاف دکھلانے کے ارادے سے بے نظیر کی اسرائیل نوازی کو پرموٹ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس طبقہ کاماننا ہے کہ بلاشبہ محترمہ بے نظیربھٹوایک آزاد خیال مسلم خاتون تھیں جن کے اہل مغرب سے گہرے مراسم تھے لیکن وہ جنرل پرویز مشرف کی طرح ”ضمیرفروش “نہیں تھیں۔انہوںنے امریکہ اوراہل مغرب سے خوشگوارتعلقات ضرور قائم کئے ہوئے تھے اورجلاوطنی کے دنوںمیں برطانیہ ان کاٹھکانہ بھی ہواکرتاتھا۔لیکن کسی ایک موقعہ پر بھی بے نظیربھٹونے ملت فروشی کو راہ دینے کی کوشش نہیںکی تھی۔یہ استدلال پیش کرنے والاطبقہ پاکستان میں برسرپیکارشدت پسندبیت اللہ محسود کے اس بیان کو پیش کرنا نہیں بھولتاجس میں بقول پیپلزپارٹی رہنمامحسود نے دواہم مواقع پر بے نظیربھٹوکو یہ پیغام بھیجاہواتھاکہ شدت پسندان پر حملہ نہیں کریںگے۔اسرائیل کے انکشاف کے بعد فوری طورپرقتل کی یہ گتھی بظاہر الجھتی دکھائی دے رہی ہے لیکن شاید پاکستان میں صیہونیت کے بڑھتے اثر ونفوذکاجائزہ لینے کے بعدوہ حقیقت منظرعام پر آجائے گی کہ بے نظیرکو موساد اورسی آئی اے نے اپنا نشانہ بنایایانہیں؟اوراگر بنایاتوکیوں؟
................................باقی آئندہ

No comments: