Thursday, February 7, 2008

राज की आग में खन्ना का घी

راج کی’آگ‘میں کھنہ کاگھی
علاقائی عصبیت کے تعلق سے ممبئی میں بھڑکائی جانے والی آگ میں تیجندر کھنہ کا یہ بیان گھی کا کام کرگیا ہے کہ شمالی ہند کے لوگ ٹریفک ضابطہ کی پاسداری نہیں کرتے یا یہ کہ وہ ٹریفک کے اصول کو نبھانے کے معاملے میں قانون شکن ہوتے ہیں۔ ایل جی کا یہ بیان حالانکہ کسی ایسے مقصد کے لیے سامنے نہیں آیا ہے جسے علاقائی عصبیت قرا ر دیا جاسکے لیکن ایسے سیاق وسباق کے درمیان دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر نے شمالی ہند کے لوگوں کو ہدف تنقید بنایا جس کا شدید ردعمل سامنے آنا فطری ہے۔ ایسے حالات کے درمیان جب کہ راج ٹھاکرے کی لگائی ہوئی آگ سے مہاراشٹر تپ رہا ہو تیجندر کھنہ کو چاہئے تھا کہ اس میں گھی ڈالنے کا کام ہرگز نہ کرتے ۔یہ موقع ہرگز ایسابھی نہیں تھا کہ اس قسم کے تبصرے کیے جاتے جو بادی النظر میں ہتک آمیز یا توہین آمیز قرار پاتے۔ اسے ہم عزت مآب لیفٹیننٹ گورنر کی عالمانہ بصیرت وبصارت کی کمی ہی قرار دے سکتے ہیں کہ انہوں نے ایک ایسا ریمارک چھوڑا جس کے بعد راج بھون کو یہ بتانے میں خفت کا سامنا کرنا پڑگیاکہ ایل جی کی جائے پیدائش کیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ عزت مآب گورنر نے اپنے اوپر برسنے والی تنقیدوں کے تیر سے گھائل ہونے کے بعد وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے اس شرمندگی کو بہرطور دور کرنے کی کوشش کی کہ ان کے بیان کومیڈیا کے لوگوں نے توڑ مروڑ کر پیش کیا۔ یہ پہلا موقع نہیں جب کسی سرکردہ شخص کی جانب سے جاری ہونے والے بیان صفائی کے توسط سے اپنے دامن کو صاف اور پاک دکھانے کی خاطر میڈیا کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہو۔ اطلاعاتی انقلاب کے برپا ہوجانے کے بعد میڈیا کے حمام میں اکثر صاحبان سیاست ننگے بھی ہوتے رہے ہیں کیونکہ جیسے ہی وہ یہ کہہ کر گلو خلاصی چاہتے ہیں کہ میڈیا نے غلط تناظر میں ان کے بیان کو پیش کیا، الیکٹرانک میڈیا ان کے سابقہ بیان کو من وعن نشر کرنے سے نہیں چوکتا۔ حالانکہ ایل جی کے بیان کو اگر ممبئی کے معاملے سے جوڑ کر نہ دیکھا جائے تو انہوں نے کوئی ایسا ریمارک نہیں چھوڑا جسے کسی بھی طرح سے طعن وتشنیع کا شکار بننا پڑے یا جس سے علاقائیت کی بو محسوس ہو۔لیکن اسے ہم محترم کھنہ کی شخصیت کی جانب سے زیر اظہار لایا جانے والا نامحترم قول ہی کہیں گے کیونکہ انہوں نے راج کی آگ میں گھی ڈالنے کا براہ راست نہ سہی بلا واسطہ طور پر اور انجانے میں ہی غلطی سرزد کی۔سوال یہ ہے کہ مسٹر کھنہ کو اس کی کیا ضرورت درپیش ہوئی تھی کہ وہ اہل جنوب اور اہل شمال کا موازنہ کرنے لگ جائیں اور احوال واقعی کے تناظر میں یہ حقیقت پیش کرنے کی کوشش کریں کہ جنوب والوں کے مقابلے اہالیان شمال قانون شکن ہیں ۔ اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں کہ عزت مآب لیفٹیننٹ گورنر نے یہ بیان کس تناظر میں دیا۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ان کے منقولات اور فرمودات سے کیا نتیجہ اخذ کیا گیا؟منشی کی برہمی، لالو کی گرج، نتیش کا برسنا اور راج ٹھاکرے کا پھولے نہیں سمانا اور خوشی میں بدمست ہوجانا آخر کیا پیغام دے رہا ہے؟دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر تیجندر کھنہ کے اس قول کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی صاحب فہم یہی نتیجہ اخذ کرے گا کہ وہ مصلحت اندیشی سے عاری ایک ایسے شخص ہیں جنہیں قومی منظر نامہ میں رونما ہونے والے تغیر وتبدل اور مثبت و منفی نتیجہ خیزی کا بھی کوئی ادراک نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوںنے بحیثیت لیفٹیننٹ گورنر ایک ایسا بیان داغ ڈالا جو آج مضحکہ خیزی کی علامت بن رہا ہے اور جب راج بھون سے یہ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ محترم تیجندر کھنہ کی جائے پیدائش کیا ہے تو راج بھون خفت کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے جائے پیدائش بتانے سے معذوری ظاہر کردیتا ہے۔جہاں تک تیجندر کھنہ کی فہم وفراست کاتعلق ہے توانہیں اس کسوٹی پرپرکھنے کے بعد پہلے بھی ایک ناکام شخصیت کے طورپر دیکھا جاچکا ہے۔ قارئین کے حافظے میںیہ بات ضرور ہوگی کہ یوم جمہوریہ کے تعلق سے راجدھانی میں نظم ونسخ کی برقراری کے تعلق سے کیے جانے والے اقدام کے درمیان موصوف نے دہلی میں مقیم لوگوں کے لیے شناختی کارڈ کو لازم قرار دینے کا اعلان کرتے ہوئے شناخت کے مسئلے کوچوں چوں کا مربہ بنادیا تھا۔ آخر کارکھنہ نے اپنے قدم پیچھے کھینچے اور تب کہیں جاکرشناخت کے تعلق سے اٹھنے والا مخالفتوں کا طوفان تھم سکا۔قارئین کو یہ بھی یاد ہوگا کہ دہلی کی وزیر اعلیٰ محترمہ شیلا دکشت نے بھی مئی کے اوائل میں ایسا ہی ایک بیان داغ ڈالا تھا جس سے راست طور پر بہار اور یوپی کے لوگ ناراض ہوگئے تھے اوروزیر اعلیٰ دہلی کو دہلی پر ایک بوجھ بھی قرار دے دیا گیا تھا۔ برسبیل تذکرہ ان باتوں کوزیر موضوع لائے جانے کا مقصد یہ ہے کہ صاحبان سیاست اورارباب اقتدار کو یہ تنبیہ کی جاسکے کہ وہ اپنے منقولات اور فرمودات کے توسط سے سماج اور معاشرے میں نفرت کی بیج بونے کے بجائے اخوت و بھائی چارگی کا درس دینے کی کوشش کریں۔ اگر ان کی استطاعت اس لائق نہیں ہے کہ وہ معاشرے کو بہتری کی راہ پر گامزن کرسکیں تو ہمارا ان سے یہ مشورہ ہے کہ وہ ایسے عہدہ¿ جلیلہ کوفوراً خیر بادکہہ دیں تاکہ آئینی عہدوں کا وقار اور اعتبار بحال رہ سکے۔ ایک زمانہ تھا جب لوگ بڑوں کی قدر کرنا جانتے تھے اور اعلیٰ عہدوں پر فائز صاحبان کیتعظیم وتکریم بہرطور برقراررکھی جاتی تھی لیکن بدلتی قدروں کے ساتھ ساتھ اب یہ صورت حال پیدا ہوچکی ہے کہ عہدوں کے اوج ثریا پر بیٹھے لوگ بھی اگر ذرا سی لغزش کر بیٹھتے ہیں تو ان کا دامن کھینچنا ، ان پر طرح طرح کے الزامات عائد کرنا، ان کی کردار کشی کرنا اور انہیں نامعقول اور ناہنجار قرار دیناعام سی بات ہوگئی ہے۔ ایسے حالات کے درمیان اعلیٰ عہدے اور مناصب بار بار شرمسار ہوتے رہے ہیں لہٰذا کرسی پر بیٹھے لوگوں کو چاہئے کہ وہ بھی منصب کا خیال رکھیں اور بٹھانے والوں کو بھی چاہئے کہ وہ ایسے افراد کو متمکن کریں جو اہل ہو اور اپنی کج فہمی اور کج نگاہی کے ذریعہ باوقار عہدوں کو داغدار یا شرمندہ نہ کرے۔

No comments: