Saturday, February 9, 2008

राज की गुंडागर्दी

راج کی زہر افشانی حکومت مہاراشٹر کی مردانگی پرحملہ؟
ہاتھوںمیں چوڑیاں، پیروںمیں بیڑیاںآخرکیوں؟؟
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مہاراشٹر حکومت نے اپنے ہاتھوں میں چوڑیاں پہن رکھی ہیں اور امن وقانون کے پاسبانوں کے پیروں میں بیڑیاں ڈال دی گئی ہیں جبھی تو مہاراشٹر میں راج ٹھاکرے کی غنڈہ گردی بارباراپنے جلوے دکھارہی ہے ، نفرت کی آبیاری کی جارہی ہے ، علاقائی عصبیت کو ہوا دیا جارہا ہے، مراٹھی اورغیر مراٹھی کی تفریق کو سامنے لاتے ہوئے مخصوص طبقہ کی تائید حاصل کرکے شمالی ہند کے لوگوںکے خلاف ہرزہ سرائی کی کوشش نقطہ عروج پر پہنچائی جارہی ہے اور مہاراشٹر کی رائے عامہ کوعلیٰ الاعلان شمالی ہندوستان کے لوگوں پر حملے کےلئے اکسایاجارہاہے، اس کے باوجود نفرت کا سودا گر قانون کے شکنجے سے پوری طرح آزاد ہے اوراپنی غنڈہ گردی میں مصروف ہے پھربھی کسی طرح کی تادیب کی تلوار اس پر نہیں لٹکائی جارہی ہے تو اس سے کیا یہ پیغام نہیں جاتا کہ مہاراشٹرکی انتظامیہ اور وہاں کی حکومت نے اپنے ہاتھوںمیں چوڑیاںاور پیروں میں بیڑیا پہن یا ڈال رکھی ہیں؟ یہ سوال اس وجہ سے قابل توجہ ہے کیونکہ شمال وجنوب کا یہ معاملہ بڑھتا ہوا ممبئی سے باہر نکل چکا ہے اورمہاراشٹر کے کونے کونے میں نفرت کا یہ پیغام مراٹھی اور غیر مراٹھی لوگوں کے درمیان ایک خط فاصل کھینچ رہا ہے۔ ایک ایسا فاصلہ جس کو مٹانے میں شاید برسوں لگ جائے۔ باوجود اس کے کہ نفرت کی دیوار کو پاٹنا ممکن نہ ہوسکے۔ لہٰذا ایسے حالات کے درمیان نفرت کی سوداگری کی کوششوںکوپہلی فرصت میں بزور بازو دبانے کی ضرورت تھی لیکن مہاراشٹر کی حکومت نے اس کی جرات نہیں دکھائی۔ اس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ حکومت مہاراشٹر یا تو راج ٹھاکرے کی غنڈہ گردی کو اخلاقی تائید فراہم کرارہی ہے یا پھر حکومت راج ٹھاکرے سے نمٹنے کے معاملہ میں خود کو بے دست وپا محسوس کررہی ہے۔ حکومت کو یہ خطرہ درپیش ہے کہ اگر راج ٹھاکرے کے خلاف کسی طرح کی کارروائی کی گئی تو مہاراشٹر میں بڑی خونریزی ہوسکتی ہے۔ اگر اس اندیشے کے پیش نظرراج کے خلاف کارروائی سے پرہیز کیا جارہا ہے تواس کا صاف مطلب یہی ہے کہ مہاراشٹر کی حکومت انتہائی بزدل اور فرض ناشناس ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس حکومت میں یہ جرات نہ ہو کہ وہ امن وقانون کی صورت حال سے نمٹنے کے معاملے میںمردانگی کا ثبوت دے سکے کیا اسے حکمرانی کا حق حاصل ہے؟ اس سوال پر سنجیدہ بحث کی ضرورت درپیش ہے کیونکہ علاقائی تعصب کو بڑھاوا دینے اور شمالی ہندوستان کے خلاف اپنی تقریروں اور تحریروں کے توسط سے منافرت پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی سے گریز دوسروں کو بھی غلط راستے کا راہی بنا سکتا ہے۔ ایک وقت تھا جب مہاراشٹر میں نفرت کا ایک ہی سوداگر ہواکرتا تھا جسے بال ٹھاکرے کے نام سے جانا جاتا تھا۔بال ٹھاکرے نے مہاراشٹر کی سرزمین پر منافرت کو ہوا دینے کے لیے کس کس قسم کی حرکتیں کیں ،یہ ہر کسی کو معلوم ہے باوجود اس کے ان کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنا فرض نبھانے میں جو کوتاہی دکھائی وہ بھی سبھوں کے سامنے ہے۔ مہاراشٹر کا فرقہ وارانہ فساد نفرت کے اسی سوداگر کی کارستانی ہے۔ یہ ہر کوئی جانتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی نفرت کے اس سوداگر کو بے لگام چھوڑ دیا گیا اور نتیجہ کے طور پر امن وقانون کی پامالی بار بار مہاراشٹر کی فضا کو مکدر بناتی رہی۔ اب بال ٹھاکرے کا بھتیجہ راج ٹھاکرے انہیں کے نقش قدم پر آگے بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس نے نفرت کی آگ کو بھڑکانے کے لیے اپنے چچا سے تھوڑا الگ ہٹ کر ماحول سازی کی کوشش کی ہے اوربھرپور عوامی تائید کے حصول کے لیے مراٹھی ازم کا نعرہ بلند کیا ہے۔ لیکن اگرچچا اور بھتیجے کی فکر کو گہرائی کے ساتھ پرکھا اور تولا جائے تو ہم سمجھتے ہیںکہ دونوں ہی نفرت کیسوداگری میں کم وبیش ایک ہی راستے کے راہی دکھائی دے رہے ہیں۔اسی کے ساتھ یہ تلخ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ جس طرح چچا بال ٹھاکرے کے خلاف کارروائی کے معاملے میں حکومت مہاراشٹر نے اپنے ہاتھوں میں چوڑیاں پہن رکھی تھیں ،بھتیجے راج کے خلاف بھی کارروائی کے معاملے میں یہی کیفیت دیکھنے کو مل رہی ہے۔یہ سانحہ حکومت مہاراشٹر کے لیے چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ایک شخص واحد حکومت کی مردانگی کو للکار رہا ہو باوجواد اس کے حکومت اس کا بال بیکا کرنے کی بھی جرات نہیں رکھتی ہو اور نتیجہ کے طور پرعلاقائی عصبیت کا زہر زہر ہلاہل بن کر مہاراشٹر میںخونریزی کو دستک دے رہا ہو۔ یہ مقام غور بھی ہے اور مقام شرم بھی ۔

No comments: