شاہدالاسلام
نفرت کاسوداگرہندوہوتوبدمعاش!مسلمان ہویا کوئی اورتودہشت گرد!!یہی نظریہ اس وقت پورے ملک میں مہمیزپارہاہے۔جبھی تواڑیسہ میںعیسائی عبادت گاہوں پر ہندودہشت گردوںکے حملے پر پورا ہندوستان خاموش ہے اور دہشت گردوںکاننگاناچ کل سے جاری ہے۔ دہشت گردی کے اس کھیل کو مذہب کے لبادے میں لپیٹ کر دیکھنے کی روایت کو استحکام بخشنے والی سرکاری مشنری کی بے شرمی اور بے حیائی تودیکھئے کہ تقریباً24گھنٹے سے ہندودہشت گرد اڑیسہ میں عیسائی آبادی پر عرصہ¿ حیات تنگ کئے ہوئے ہیں،جگہ جگہ ان پر حملے کئے جارہے ہیں اور ان کی عبادت گاہوںاورکمین گاہوںکوآگ لگائی جا رہی ہے۔لیکن اس کے باوجود ارباب اقتدارسے لے کر دہشت گردی کا شوروغوغابلند کرنے والے عناصر سبھی خاموش ہیں اور ان میں سے کسی ایک نے بھی یہ جرا¿ت نہیںکی کہ وہ کم از کم ہندودہشت گردوںکو’ دہشت گرد‘ کہنے کاہی حوصلہ جٹاپائیں،ان پر کارروائی کیاجانا تودورکی کوڑی ٹھہری۔ملک میں دہشت گردی کے عفریت پر قابوپانے میں ناکامی کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ دہشت گردی کے تمام واقعوںمیںدیکھنے اور پرکھنے کا پیمانہ مذہبی خطوط پر طے کیاجاتاہے اور اسی نظریہ کے تحت تخریب کاری کے واقعہ کی نوعیت کاتعین کیا جاتاہے کہ اسے کونسانام دیاجائے۔ اڑیسہ میںدہشت گردی مچانے والے عناصرچونکہ ہندو جنونی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیںلہٰذاانہیںدہشت گردکہنے کی جرا¿ت کسی میں نہیں ہے۔نہ صرف یہ کہ انہیں ملک کی انتہائی قلیل آبادی پر مشتمل عیسائی برادری پر حملے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے بلکہ سچی بات تویہ ہے کہ حکومت کی سطح سے لے کرانتظامی اہلکاروںکی جانب سے انہیں اخلاقی مددبھی فراہم کرائی جارہی ہے۔غالباً یہی سبب ہے کہ گزشتہ شب چھ گرجا گھروں کوآگ لگائے جانے کے بعدتشددکے واقعہ کو قابو میں نہیں کیاجاسکااورنتیجہ کے طورپر” نفرت کے سوداگر“ طوفان بدتمیزی پیداکرتے ہوئے مزیدعلاقوںکو اپنی جارحیت کانشانہ بنارہے ہیں۔اڑیسہ میں عیسائی برادری پرحملہ کایہ پہلاسانحہ نہیں ہے جس کے تعلق سے یہ کہہ کر گلوخلاصی کی کوشش کی جائے کہ اچانک پھوٹ پڑنے والی تشددکوقابومیںکرنا دشوار ہورہاہے۔بلکہ سچی بات یہ ہے کہ یہاں وقتاً فوقتاً اس طرح کے واقعے ماضی میں بھی رونماہوتے رہے ہیں۔ آسٹریلیاسے تعلق رکھنے والے عیسائی مبلغ کو اسی ریاست میں ہندوبلوائیوںنے اپنے وحشی پن کاثبوت دیتے ہوئے زندہ جلاڈالاتھا۔نہ صرف یہ کہ عیسائی مبلغ کو اپنی جان گنوانی پڑگئی تھی بلکہ ساتھ ہی ساتھ ان کاجگرگوشہ بھی اس سانحہ کی نذرہوگیاتھا۔دنیابھرمیں اس سانحہ پر شدید ردعمل کااظہاربھی ہوا،حکومت ہند کو خفت بھی اٹھانی پڑی لیکن اس کے باوجودہندومذہب کی رسوائی کاسامان فراہم کرانے کا سلسلہ تھمنے کے بجائے درازہی ہورہاہے۔ مقتول عیسائی مبلغ کی اہلیہ نے تورحمدلی کانمونہ پیش کرتے ہوئے اپنے شوہراوربچوںکے قاتلوںکو معاف کردیاتھا لیکن انسانیت کو شرمادینے والے پے درپے رونما ہونے والے واقعات کے خاطیوںکو ہماری حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے دی جانے والی کھلی چھوٹ رحمدلی کے زمرے میں توآتی نہیں،جسے معافی کانام دیا جائے۔ اسے انسانیت کی تاراجی یامذہب کاجنون ہی کہا جاسکتاہے جس کے تحت ایک خاص فرقہ کو غنڈہ گردی کی پوری پوری آزادی حاصل ہے۔
No comments:
Post a Comment