Monday, December 31, 2007

BENAZEER BY SHAHIDUL ISLAM

بے نظیرکے خون سے مشرف کا ہاتھ سرخ
شاہدالاسلام
بے نظیر بھٹو آخر کارتاریخ کا حصہ بن گئیں۔ ایک ایسی تاریخ کا حصہ جہاں امن ، سکون اور اطمینان کے لیے شایدکوئی جگہ نہیں۔مملکت خدا دادکوپتہ نہیں کس کی بددعا لگ گئی ہے کہ یہاں قتل وغارت گری نقطہ عروج کو پہنچ چکی ہے اور آئے دن خود کش حملے اس تیزی سے کیے جارہے ہیں کہ انسانیت کانپ رہی ہے۔ آج ایسے ہی ایک اندوہناک سانحہ میں پیپلز پارٹی کی چیف محترمہ بے نظیر بھٹو کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور خود کش حملہ میں بال بال بچ جانے کے بعد انہیں قریب سے گردن میں گولی ماردی گئی اورآخر کاران کی زندگی کا قصہ تمام ہوگیا۔ بے نظیر بھٹو تاریخ کا حصہ بن گئیں اورپاکستان کی انارکی کے حالیہ نقطہ آغاز کاانتہائی کریہہ نقطہ¿ انجام سامنے آیا۔بے نظیر بھٹو پاکستان کی سیاست میں ایک ایسا منفرد نام تھا جس کا کوئی ثانی نہیں۔ مملکت خداداد پرایک خاتون ہوتے ہوئے حکمرانی کے خواب کو یقین میں بدلنے والی بے نظیر بھٹوایک طویل مدت سے جلا وطنی کی زندگی گزار رہی تھیں اور حال ہی میں ان کی وطن واپسی ماورائے اقتدارحکومت پاکستان سے ہونے والے مفاہمت کے نتیجہ میں عمل میں آئی تھی۔یہ اتفاق ہے کہ بے نظیر بھٹونے جیسے ہی طویل جلاوطنی کے بعد پاکستان میں قدم رکھا خود کش دھماکہ کے ذریعہ ان کا استقبال کیا گیا۔ایک ایسا دھماکہ جس نے نہ صرف یہ کہ سیکڑوں افراد کی جان لے لی بلکہ سچی بات یہ ہے کہ اس نے بے نظیر کے مستقبل کے تئیں اندیشہ ہائے دراز کو جنم دے دیا کہ مستقبل قریب میں قیام پاکستان کے دوران ان کی زندگی کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ حالانکہ صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف نے بے نظیر کی وطن واپسی کے بعد استقبالیہ تقریب پر ہونے والے خود کش حملوں کے بعد بے نظیر کی سیکورٹی میںکسی طرح کی کوتاہی نہ برتنے کا عزم ظاہر کیا تھا لیکن یہ عزم کس حدتک اخلاص اور صداقت پر مبنی تھا اس کی حقیقت بے نظیر کے قتل کے ساتھ ہی سامنے آگئی ہے۔2007کو پاکستان کے لیے یقینی طور پربڑے کرائسس کا دور کہا جاسکتا ہے یہ اور بات ہے کہ مشرف نے اس دوران کھال اتارتے ہوئے سویلین صدر بننے میں کامیابی حاصل کرلی اورملک میں عام انتخابات کرانے کا عمل شروع کردیالیکن اس دوران ایمرجنسی کے نفاذ اور خاتمے کا ڈرامہ اور پھربے نظیر بھٹوکے قتل کا سانحہ اس سال کے خاتمے پر رونما ہونے والاایساسانحہ عظیم ہے جسے شاید پاکستانی سیاست کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہی قرارنہیں دیا جائے گابلکہ عالمی سطح پر بھی اس کے دور رس اثرات مرتب ہوںگے۔ بے نظیر بھٹو نے پاکستان میں پائیدار جمہوریت کے قیام کے لیے مشرف سے نہ چاہتے ہوئے بھی ڈیل کی کوشش کی تھی اوراسی ڈیل کے نتیجہ میں ان کی وطن واپسی ممکن ہوسکی تھی۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بے نظیر بھٹوکے قتل کو کیاپاکستانی قوم فراموش کردے گی یا اس سے کوئی سبق بھی لے گی؟اس وقت پاکستان میں انارکی کا ایسا دور دورہ ہے جہاںامن کا تصور بھی محال ہوچکا ہے اور سرکردہ شخصیات خود کش حملہ آوروں کے نشانے پر ہیں۔ ایسے حالات کے دوران رائے عامہ پوری طرح مجبور محض بن چکی ہے اور فوجی آمر امریکہ کے اشارے پرپاکستان کو گمراہی کے دلدل میں دھکیل رہا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹوکے قتل کے تعلق سے صدر پاکستان پرویز مشرف خواہ کچھ بھی موقف اختیار کریں اوراپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے جو بھی تاویل بیا ن کریں اس سانحہ کے لیے یقینی طور پر وہ بنفس نفیس خودہی ذمہ دار قرار پائیں گے۔کیونکہ ایسے اندیشے پہلے سے موجود تھے کہ بے نظیر بھٹوکی زندگی کوخطرہ لاحق ہے۔ چنانچہ ایسے حالات کے درمیان سیکورٹی میں کسی بھی طرح کا جھول اورنتیجہ کے طور پر بے نظیر بھٹو کا قتل مشرف کو اس سانحہ کے لیے ذمہ دار نہ قرار دینے کی کوئی گنجائش باقی نہیں چھوڑتا۔ سوال یہ ہے کہ فوجی آمر سے سویلین صدر تک سفر طے کرنے والے میاں مشرف پاکستان کو کہاں لے جانا چاہتے ہیں۔ ایک ایسی محترم شخصیت کے تحفظ کی بھی جہاں ضمانت نہ ہو، جووزارت عظمیٰ کے منصب عالیہ پر دو اہم مواقع پر فائز رہ چکی ہوں وہاں انسانیت کس طرح ہچکولے کھارہی ہے اس کا بخوبی اندازہ محترمہ بے نظیر بھٹوکے قتل سے لگایا جاسکتا ہے۔مشرف نے ملک میں ہنگامی صورت حال کے نفاذ کے دوران ملک میں متواتر ہونے والے خود کش حملوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی تھی اور کہا تھا کہ ملک میں سکون واطمینان کی حکمرانی دینے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ایسے عناصر سے سختی کے ساتھ نپٹا جائے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مشرف نے ہنگامی صورت حال نافذ کرنے کے بعد کس طرح کی حکمت عملی اختیار کی ، فدائین سے نپٹنے کے لیے کیا ٹھوس اقدامات اٹھائے گئے اورپھر کیوں کرایمرجنسی اٹھالی گئی۔ پاکستان کے حالات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف نے ذاتی منفعت کے حصول کے لیے ملک کے وقار کو،سکون واطمینان کو، ملک کی عدلیہ کو ، انتظامی مشنری کو، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ پورے حکمرانی کے نظام کواستعمال کیااوراب جب کہ عام انتخابات کے بعدمحترمہ بے نظیر بھٹو کی اقتدار میں واپسی یقینی جان پڑرہی تھی ان کی زندگی کا قصہ بھی تمام کروادیا۔اگر ایسا نہیں تھا تو پھرایک ایسی عظیم شخصیت کے تعلق سے سیکورٹی کا جھول کیوں کر سامنے آیا اورحملہ آور بہ آسانی پاکستانی سیاست کی سب سے بڑی شخصیت کوکیسے بہ آسانی قتل کردینے میں کامیاب ہوگئے ۔یہ سوال بہرحال نظر انداز کیے جانے کے لائق نہیں اور اس سلسلے میں میاں مشرف قابل مواخذہ ہیں۔

No comments: