Thursday, May 20, 2010

اردوکے سب سے بڑے سرقے کو بے نقاب کرنے والی کتاب

’ڈاکٹر نارنگ اور مابعد جدیدیت

شاہدا لاسلام

معروف شاعر اور ادیب حیدر قریشی کی تازہ ترین کتاب ” ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور مابعد جدیدیت“ پےش نظر ہے۔ قبل اسکے کہ اس کتاب کے بارے مےں اپنے تا ¿ثرات کا اظہار کروں، اس بات کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ےہ کتاب کیوں اور کن حالات مےں مجھے دستیاب ہوئی! قصہ ےہ ہے کہ آج سے تقریباً اےک سال قبل ممب ¿ی سے نکلنے والے سہ ماہی ادبی رسالہ ”ا ©ثبات“(شمارہ۳) پر ناگاہ مےری نظر پڑ گئی۔رسالہ اتنا دیدہ زےب اور پر کشش تھا کہ ادب سے لا تعلق رہنے والے مجھ جےسے صحافی نے بھی اس کی ورق گردانی شروع کردی۔ اندر کے صفحات کی ترتیب و تنظےم بھی خاصی متا ¿ثر کن معلوم ہوئی۔ ابھی رسالے کی ظاہری خوبیوں کے سحر سے نکل بھی نہےں پایا تھاکہ اس مےں شامل اےک سرخی پر نگاہ ٹک گئی۔ سرخی کچھ اس طرح تھی: ” جدید ادب کے شمارہ نمبر ۲۱ کی کہانی(ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کی مہربانی در مہربانی)“۔ حیدر قرےشی کے تحریر کردہ اس مضمون کو مےں نے پڑھنا شروع کیا توپڑھتا ہی چلا گیا۔مےںمضمون نگار کے نام سے مانوس تو تھا، تاہم ان سے متعلق مےری معلومات نہےں کے برابر تھےں۔چنانچہ مضمون پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ موصوف جرمنی مےں مقیم ہےں اور وہاں سے ”جدید ادب“ نام کا اےک رسالہ بھی نکالتے ہےں۔ اس مضمون مےں انھوں نے جو کچھ تحریر کیا تھا اس کا خلاصہ ےہ تھا کہ ”جدید ادب“ کے شمارہ ۹، ۰۱ اور ۱۱ مےںعمران شاہد بھنڈر کے جو مضامےن ڈاکٹر نارنگ کی کتاب ’ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘ سے متعلق شائع ہوئے تھے اور جن مےں دلائل اور شواہد کے ساتھ ےہ ثابت کیا گیا تھا کہ ڈاکٹر نارنگ بہت بڑے پےمانے پر سرقہ کے مرتکب ہوئے ہےں، اس کے نتیجے مےں نارنگ صاحب نے رسالہ ’جدید ادب‘( جو دہلی کے اےجوکےشنل پبلشنگ ہاو ¿س کے زےر اہتمام شائع ہوتا ہے) کے شمارہ ۲۱ کی اشاعت مےں رخنہ ڈالنے کی غرض سے پبلشر پر ہر طرح کا دباو ¿ ڈالا اور اپنے ذاتی اثر و رسوخ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس شمارے پر اپنی سنسر شپ عائد کرنے سے بھی درےغ نہےں کیا۔اس معاملے کی پوری روداد لکھنے کے بعد صاحب مضمون نے کھلے ڈلے الفاظ مےں ےہ بھی تحریر کیا تھا کہ ” مےں حکومت ہند سے درخواست کرتا ہوں کہ اےک علمی کمےٹی بٹھائی جائے جو تحقیق کرے کہ نارنگ صاحب نے واقعی ےہ شرمناک سرقے کےے ہےں یا ان پر بے جا الزام ہےں۔ اگر وہ پاک صاف ثابت ہوں تومےں انڈیا کے قانون کے مطابق بخوشی ہر سزا بھگتنے کے لےے تیار ہوں“ ےہ تفصیل پڑھ کر حیرت کے ساتھ افسوس بھی ہوا کہ اردو کا ادبی ماحول اتنا پست ہوگیا کہ اےک نامی گرامی صاحب قلم اپنے اوپر لگے سرقہ کے الزام کی تردید علمی سطح پر کرنے کے بجائے سرقہ کی بات سامنے لانے والوں کا ناطقہ بند کرنا چاہتا ہے۔اس حیرت اور افسوس کی ملی جلی کےفیت مےں ، مےں نے اس مضمون کو ” ہندوستان اےکسپرےس“ کے وےب اےڈےشن مےں شامل کرلیا۔ خیال تھا کہ علمی حلقوں سے اس متنازعہ مضمون پر جو رائے بھی آئے گی اسے صحافتی دیانتداری کے تحت نذر قارئےن کر دیا جائے گا، مگر ےہ کیا؟ نارنگ صاحب کی حمایت پر کمر بستہ ٹیم حرکت مےں آگئی اور’ ہندوستان اےکسپرےس‘ کے ایڈیٹر احمد جاوید کو اس بات کے لےے آمادہ کرلیاگیا کہ اس مضمون کو ویب سائٹ سے ہٹا دیا جائے۔چنانچہ اےڈےٹر موصوف نے اس’ کارخیر‘ کو انجام دےنے کے لئے مجھے ہدایت جاری کردی ۔گو کہ حفظِ مراتب کا تقاضہ تھا کہ ’فرمانِ مدیر‘ کو ’فرمانِ خدا ‘ سمجھ کر سرتسلےم خم کردیا جائے لےکن مےں نے بھی اپنے ذاتی استحقاق کو بطور ڈھال استعمال کیا اور جواباً ےہ عرض کیا کہ آپ کا حکم اپنی جگہ، تاہم کسی مضمون کو مےں ناجائز دباو ¿ کے تحت نہےں ہٹا سکتا وےب اےڈےشن کے جملہ امور مجھ سے متعلق ہےں اور چونکہ آپ یا ادارہ کے دیگر افراد کی (ہندوستان اےکسپرےس) وےب سائٹ کے حوالے سے کوئی عملی شراکت نہےں ہے، لہذا وےب سائٹ مےں کیا چےزےں دینی ہےں اور کیا نہےں، اس تعلق سے کسی بھی مشورے کی مجھے ضرورت نہےں۔ہاں! ےہ ےقین دہانی مےں نے اےڈیٹر کو ضرور کرائی کہ اس مضمون کی تردید مےں اگرکسی گوشے سے کچھ موصول ہوا تو اسے بھی انٹر نےٹ اےڈیشن مےں اسی اہتمام سے شامل کیا جائے گا جس طرح حیدر قریشی کی تحریر شائع کی گئی ہے۔اس طرح نارنگ صاحب کے حامیوں کا غیر اخلاقی حربہ ناکام ہوا اور مدیر محترم خاموش ہوگئے۔ نارنگ صاحب کے حامیوں کی طرف سے اس غیر متوقع دباو ¿ نے تھوڑی دیر کے لےے مجھے ذہنی خلجان مےں ضرور مبتلا کیا تاہم اس کا ےہ فائدہ ہوا کہ اس کے بعد حیدر قریشی کے مضمون کی حقانیت مجھ پر پوری طرح واضح ہوگئی اور ’ہندوستان اےکسپرےس‘ کے ویب ایڈیشن مےں اس کی اشاعت پر مجھے اےک طرح کی طمانیت کا احساس ہوا۔اس دوران حیدر قریشی کو ’ہندوستان اےکسپرےس‘ کے وےب اےڈےشن مےں اپنے مضمون کی اشاعت کا علم ہوا تو ’شکرےہ‘ پر مبنی ان کی اےک ای۔ مےل ملی جس مےں دیگر باتوں کے علاوہ اس خدشے کا اظہار بھی تھا کہ عجب نہےں آپ پر ےہ دباو ¿ ڈالا جائے کہ وےب سائٹ سے اس مضمون کو ہٹادےں، مےں نے فوراً جواب دیا کہ خاطر جمع رکھےں، وہ مرحلہ آکر گزر چکا ہے، آپ کی تحریر وےب سائٹ پر موجود رہے گی،انشا اللّٰہ۔اس طرح برقی مراسلت کے ذریعہ حیدر قریشی صاحب سے جو رابطہ قائم ہوا تو اس کے نتیجے مےں اسی سلسلے کی ان کی اےک اور تحریر ”پروےزی حےلوں کی روداد“ ہندوستان اےکسپرےس کے ویب ایڈےشن مےں شائع ہوئی اور ےہ اطلاع بھی ملی کہ نارنگ صاحب کے سرقوں کی بابت مدیر موصوف کی اےک کتاب عنقریب منظر عام پر آنے والی ہے جس کی اےک کاپی مجھے ارسال کی جائے گی اور مزےد اےک کاپی ’ہندوستان ایکسپرےس‘ کے پرنٹر و پبلشرپرویز صہےب احمد صاحب کے لےے بھےجی جائے گی کیونکہ اس مےں بطور خاص ’ہندوستان اےکسپریس‘ کا شکرےہ ادا کیا گیا ہے۔ اور پھر وہ کتاب ( بعنوان ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور ما بعد جدیدیت) مجھے بذریعہ ڈاک موصول ہوگئی۔اس کے مشمولات پر اےک نظر ڈالی تو ےہ بات سمجھ مےں نہےں آئی کہ اس کا نام مابعد جدیدیت سے کیوں جوڑا گیا جبکہ اس کا اصل اور واحد موضوع ڈاکٹر نارنگ کا ’سرقہ ‘ہے۔ممکن ہے اس مےں کوئی مصلحت دخیل رہی ہو۔ وہ جو کہتے ہےں کہ دودھ کا جلا چھاچھ پھونک پھونک کر پےتا ہے، تو اس کی روشنی مےں اےک گمان ےہ گزرتا ہے کہ شاید اس ڈرسے ےہ نام رکھا گیا ہوکہ ’سرقہ‘ کے عنوان سے چھپنے والی ےہ کتاب کہےں نارنگ صاحب کے عتاب کا شکار نہ ہوجائے، اسلئے ایسا نام رکھا جائے کہ کتاب طباعت کے مراحل سے بعافیت گزر کر قارئےن تک پہنچ جائے۔ بہرحال ’نام مےں کیا رکھا ہے ‘ سوچ کر مےں نے اس کے سارے مضامین پڑھ ڈالے، اور اندازہ ہوا کہ حیدر قریشی اس کتاب کے مصنف بھی ہےں اور مو ¿لف بھی، کیونکہ نارنگ صاحب کے سرقوں سے متعلق تحریر کردہ اپنے مضامین کے علاوہ اس موضوع پر سامنے آنے والے اور کئی مضامین بھی انھوں نے اس کتاب مےں شامل کےے ہےں۔ اس کتاب مےں شامل تمام تحریروں کو پڑھنے کے بعد ’سرقہ‘ سے متعلق سارا قضیہ کچھ اس طرح سامنے آتا ہے کہ پھر کسی شک و شبہے کی گنجائش باقی نہےں رہتی کہ ڈاکٹر نارنگ کی کتاب ’ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘ سرقوں کا مجموعہ ہے۔حیدر قریشی کی زےر نظر کتاب ہمےں ےہ بتاتی ہے کہ اس حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لےے ڈاکٹر نارنگ کے حامیوں نے جو بے تکی باتےں سپرد قلم کےں، یا انتہائی بھونڈے انداز مےں خود نارنگ صاحب نے جو دوسرے غیر علمی حربے استعمال کےے ان سے سرقوں کے الزام کی تردید تو خےر کیا ہوتی،ہاں اتنا ضرور ہوا کہ ان ساری چےزوں نے اس معاملے کو اور ہوا دی ، ےہاں تک کہ مجھ جےسے ادب سے بے تعلق شخص کو بھی اس کی پوری واقفیت ہوگئی مرض بڑھتا گیا جوں جوںدواکی ،اور اس پر مستزاد نارنگ صاحب کی مسلسل خاموشی نے سرقے کی تحقیق کرنے اور اسے اردو عوام کے سامنے لانے والوں کا کام آسان کردیا۔ زےر تبصرہ کتاب سے ہمےں ےہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ نارنگ صاحب کے حامیوں نے کج بحثی سے کام لےتے ہوئے اس پورے قضےے کو نارنگ اور فاروقی کے مابےن تنازعہ کا نام دینا چاہا تو کبھی ےہ کہہ کر سرقوں کی حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی کہ حیدر قرےشی فلاں فلاں بات کی بنیاد پر نارنگ صاحب کے تئےں اپنے دل مےں پرخاش رکھتے ہےںاور ےہ سارا معاملہ اسی کدورت کی دین ہے وغیرہ وغیرہ۔جب ےہ سارے حربے غیر مو ¿ثر ثابت ہوئے تو پھر اسے مذہبی تعصب کا نام دے کر ےہ کہا گیا کہ ڈاکٹر نارنگ جےسے غیر مسلم ادیب کو کچھ متعصب قسم کے مسلمان خواہ مخواہ ہدف ملامت بنا رہے ہےں۔لےکن اےک تجربہ کار مدیر اور زمانہ شناس ادیب حیدر قرےشی نے معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس سارے قضےے کو کچھ اس خوش اسلوبی سے Manage کیا کہ سرقوں کا اصل معاملہ نظروں سے اوجھل نہ ہوسکا۔ بلا شبہ سرقوں کی حقیقت کو سامنے لانے کی غرض سے عمران شاہد بھنڈر نے مغربی مفکرےن کی متعلقہ کتابوں کو کھنگالنے مےں جو عرق رےزی کی اور جو کلےدی رول ادا کیا اس کے لےے وہ ہمےشہ یاد کےے جائےں گے ، بلکہ ےہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اےک اردو کے طالب علم کے سامنے جب جب نارنگ
صاحب کا نام آئے گا تو اس کے ساتھ اسے عمران شاہد بھنڈر کی یاد بھی ضرور آئے گی،تاہم ےہ اےک حقیقت ہے کہ بھنڈر کی ےہ ساری کاوشےں اس مو ¿ثر اور مدلل انداز مےںشاید سامنے نہ آپاتیں اگر انھےں حیدر قریشی جیسا تجربہ کاراور دھن کا پکا ادیب اور مدیر نہ ملتا۔ڈاکٹر نارنگ کے حامیوں نے اپنی بساط بھر پوری کوشش اس بات کی کرلی کہ ادھر اُدھر کی باتوں مےں الجھا کر اصل موضوع کو گول کردیا جائے، لےکن حیدر قریشی نے پوری فہم و فراست سے کام لیا، اور ان الجھاووں سے بچتے بچاتے پوری حکمت اور تدبر کے ساتھ اپنی گاڑی آگے بڑھاتے رہے، ےہاں تک کہ سرقہ بے نقاب ہوکر رہا اور اےک عام قاری سے لے کر اردو کے خاص ا لخاص ادیب کو ےہ نتیجہ اخذ کرنے مےں کوئی تا ¿مل نہےں رہا کہ ”عمران شاہد بھنڈر کے نشان زد کےے بے شمار صفحات صاف بتاتے ہےں کہ پروفیسر نارنگ نے سو فیصد لفظی ترجمہ کر کے ’سرقہ‘ کیا ہے“( زبیر رضوی، سہ ماہی ’اثبات‘، شمارہ۵۔۴)۔ نارنگ صاحب کے وہ مداح جو ان کی اس ”شاہکار تصنےف“ کو حالی کے’ مقدمہ شعرو شاعری‘ کے بعد اردو تنقید کا سب سے بڑا ’کارنامہ‘کہہ رہے تھے ان کے وہم و گمان مےں بھی ےہ بات نہےں ہوگی کہ اس ’شاہکارتصنےف‘ کو محض چند برسوں کے اندر عمران شاہد جےسا اےک نسبتاً غیر معروف لےکن ذہےن اور محنتی محقق اےک جی دار مدیر کے تعاون سے( نارنگ صاحب کے’مقام‘ و ’ مرتبہ‘ سے مرعوب ہوئے بغیر) سرقوں کا پلندا ثابت کرکے رکھ دے گا۔ ےہ کتاب ہمےں ےہ بھی باور کراتی ہے کہ اس پورے دوڈھائی سال کے عرصے مےں جبکہ سرقہ والی بات موضوع سخن بنی ہوئی تھی،ڈاکٹر نارنگ کے حامیوں نے حیدر قریشی کو زےر کرنے کے لےے ہر حربے استعمال کےے، سر زمےن ہند و پاک سے لے کر کناڈا، امرےکہ اور انگلےنڈ ہر طرف سے ان پر تابڑ توڑ حملے ہوئے لےکن ا نھوں نے اپنی جانب سے پوری بردباری کا ثبوت دیا ، اپنے خلاف لکھی گئی بے سروپا باتوں کو پڑھ کر مشتعل نہےں ہوئے بلکہ ان باتوں کا مدلل جواب دھےرج کے ساتھ مختصر طور پر دےتے رہے، ےہ سمجھتے ہوئے کہ اگر ان بے ہودہ باتوں کو طول دیا گیا تو سرقہ والی بات پس پشت چلی جائے گی ۔اپنے قلم کو غیر ضروری طور پر جذ باتی ہونے سے بچائے رکھا، نارنگ صاحب کا ذکر جب بھی کیا انکے مرتبے کا خیال رکھا۔ہاں، جب نارنگ صاحب نے ’جدید ادب‘ کے شمارہ ۲۱ کی اشاعت مےں انتہائی بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے رخنہ اندازی کی تو اس کی روداد تحریر کرتے ہوئے حیدر صاحب کا قلم مضمون کے اخیر مےں قدرے جذ باتی ہوگیا۔اسی طرح انگلےنڈ کے طبا طبائی نام کے کسی شخص نے جب ان کے خلاف اوٹ پٹانگ باتےں لکھےں تو اس کا ذکر کرتے ہوئے بھی حیدر صاحب اپنی تحریر مےں برہم نظر آتے ہےں، ےہاں تک کہ اس شخص کا نام لےنا بھی گوارا نہےں کرتے ،لےکن ےہ خفگی یا برہمی عےن فطری ہے۔ جب کسی سے ناحق اذیت پہنچتی ہے تو نہ چاہتے ہوئے بھی تحریر مےں کچھ نہ کچھ درشتی آہی جاتی ہے۔ مختصر ےہ کہ حیدر قریشی کی زےر تبصرہ کتاب نہ صرف ےہ کہ ’مشرقی شعریات‘ کے حوالے سے نارنگ صاحب کے سرقوں کی قلعی کھول رہی ہے بلکہ لسانیات کے مےدان مےں بھی پروفیسر موصوف نے اب تک جو کام کےے ہےں ان کی اصلیت کو بھی مشکوک بتاتے ہوئے ےہ اعلان کر رہی ہے کہ ” لسانیات پر نارنگ صاحب کا سارا کام بھی’ مشرقی شعریات‘ جےسا ہی نکل آیا ہے۔ جب وہ سرقے بے نقاب ہوں گے تو اردو دنیا خود دےکھ لے گی“۔ یقین ہے کہ اردو ادب کے اب تک کے سب سے بڑے سرقہ کو سامنے لانے والی اس کتاب کا علمی حلقے مےں بڑے پےمانے پر خیر مقدم ہوگا اور اس کا ذکر اس زبان کی ادبی تاریخ مےں پورے اہتمام سے کیا جائے گا، اور سب سے اہم بات ےہ ہے کہ اس کے مندرجات کی روشنی مےں ڈاکٹر نارنگ کا مقام و مرتبہ نظر ثانی کا محتاج ہوگیا ہے۔ کتاب کی ظاہری ہےئت ےہ بتاتی ہے کہ انتہائی عجلت مےں طباعت کے مرحلے سے گزری ہے، تاہم صاف ستھری اور کمپوزنگ کی غلطیوں سے تقریباً پاک ہے۔سر ورق پر ڈاکٹر نارنگ کی اےک (حسب حال) تصویر بہت کچھ کہتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ڈےڑھ سو صفحات پر مشتمل ےہ کتاب سروَر اکادمی ، مغربی جرمنی کے زےر اہتمام شائع ہوئی ہے اور اس کی قیمت ۰۵۱ روپے ہے۔اس کے حصول کے لئے حیدر قرےشی سے بذرےعہ ای۔مےل اس پتے پر رجوع کیا جاسکتا ہے:
haider_qureshi2000@yahoo.com ٭٭٭

No comments: